ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس: وزیراعلیٰ اور آئی جی نے غیرمشروط معافی مانگ لی۔

ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور دیگر نے سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہوئے غیرمشروط معافی مانگ لی،عدالت نے آئی جی کلیم امام کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالد لک کو نئی انکوائری رپورٹ 15 دن میں پیش کرنے کا حکم دیدیا،چیف جسٹس نے سابق آئی جی پنجاب کلیم امام پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ نے آپ پر اعتماد کر کے رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آپ نے بدنیتی سے رپورٹ بنائی، رپورٹ میں سب اچھا کہا گیا، ہم نے معاملے کے سیاسی پہلو کی تحقیقات آپ پر بھروسہ کر کے سونپی لیکن آپ نے ہمارا اعتماد توڑا،آپ نے کیا تحقیقات کی، آر پی او اور ڈی پی او کے بیانات آپس میں نہیں ملتے، امام آپ کو موقع دیا تھا لیکن آپ نے گنوا دیا، کام ایمانداری سے کیا یا نہیں یہ تعین عدالت کریے گی، اپنے دفاع کے لیے وکیل بھی کرلیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سابق ڈی پی پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔چیف جسٹس پاکستان نے سابق آئی جی پنجاب کلیم امام پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے ان کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ مسترد کر تے ہوئے آئی جی کی انکوائری رپورٹ کو ردی کا ٹکڑا قرار دےدیا، چیف جسٹس نے کہا ایک ادمی کو بچانے کےلئے آپ نے اپنے دونوں افسروں کو جھوٹا ثابت کر دیا، آپ کو اپنی پولیس اتھارٹی کی کوئی پرواہ نہیں،چیف جسٹس نے کلیم امام سے مکالمہ کیا کتنی اہم انکوائری آپ کے سپرد کی تھی، میں نے آپ پر اعتماد کیا کہ درست انکوائری کر کے لائیں گے، چیف جسٹس نے استفسار کیا احسن گجر کی جرات کیسے ہوئی کہ آئی جی سے تبادلے کا کہتا؟سپریم کورٹ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزردار کو طلب کرلیا، احسن جمیل گجر کو بھی عدالت نے طلب کرلیا، آئی جی کلیم امام بتایا ک میں نے ڈی پی او کا تبادلہ نہیں کیا، میں اس لڑکی کےلئے دکھی تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس لڑکی کےلئے ہم سب دکھی ہیں، عدالت نے آئی جی سے مکالمہ کیا کہ آپ نے پولیس فورس کو ذلیل کرایا، آئی جی کلیم امام نے بتایا احسن جمیل بچوں کا گارڈین ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا بچوں کا باپ فوت ہو گیا ہے؟ کیا آپ نے احسن جمیل کے پاس کوئی گارڈین سرٹیفکیٹ دیکھا؟ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلاتے ہیں کیا آپ کہیں بھی آئی جی لگنے کے قابل ہیں؟چیف جسٹس نے کہا واقعہ کی انکوائری کسی اور کو دیتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا آپ نے تعین کرنا تھا کہ کوئی قابل دست اندازی جرم ہوا کے نہیں؟ چیف جسٹس نے کہا یہ ہمارے لئے کوئی چھوٹی بات نہیں، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلائیں، چیف جسٹس نے کلیم امام سے سوال کیا خود بتائیں آپ آئی جی بننے کے اہل ہیں؟ چیف جسٹس نے کلیم امام کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب اپنے بیج اتار دیں، ڈی پی او پاکپتن کا رات ایک بچے مشکوک انداز میں تبادلہ ہوا، چیف جسٹس نے کلیم امام سے مکالمہ کیا آپ کہتے ہیں کچھ ہوا نہیں، احسن جمیل نے کس حیثیت میں ڈی پی او سے وضاحت مانگی، چیف جسٹس نے استفسار کیا گجر وزیراعلیٰ کے پاس سفارش لے کر گئے تھے، احسن جمیل گجر کوبلایا تھا، آئی جی نے بتایا عدالت نے سیاسی پہلو کی تحقیقات سونپی تھیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے پولیس افسران کو وزیراعلیٰ سے ملنے سے کیوں نہیں روکا؟ آئی جی کلیم امام نے بتایا جب مجھے پتا چلا تو میں اسلام آباد میں تھا، چیف جسٹس نے کہا آپ اسلام آباد میں تھے کسی دوسرے ملک تو نہیں تھے، وزیراعلیٰ نے اپنے سامنے پولیس افسران کو ذلیل کرایا، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سینئر پولیس افسر خالد ملک سے تحقیقات کرائیں، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا وزیراعلیٰ بنے تیسرا دن تھا، جب مانیکا فیملی اور پولیس کے واقعے کا علم ہوا، چاہتا تھا معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو جائے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے رات 10بجے پولیس افسران کو طلب کیا؟ وزیراعلیٰ نے بتایا میں نے افسران کا حال احوال پوچھا اور ان کی خود چائے سے نواضع کی، میں نے آر پی او سے کہا کہ اس معاملے کو خود حل کریں، میں نے کوئی سیاسی دباﺅ نہیں ڈالا، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور احسن جمیل گجر نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی، چیف جسٹس نے کہا وزیراعلیٰ صاحب آپ لوگوں کو بلا کر سفارشیں کرتے پھرتے ہیں؟ آپ پولیس افسران پر دباﺅ اور رعب ڈالتے ہیں؟عثمان بزدار نے بتایا میں نے کہا دوستانہ ماحول میں مسئلہ حل کریں، آئی جی صاحب اسلام آباد میں تھے افسران کو خود ملنا چاہتا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا افسران سے ملیں مگر احسن جمیل گجر کو دفتر کیوں بٹھایا؟کلیم امام آپ نے پولیس کو بے عزت کرایا، وزیراعلیٰ نے بتایا آر پی او کو اپنے ہاتھوں سے چائے پیش کی، عثمان بزدار نے بتایا کہ احسن جمیل گجر نے کہا یہ بچے ہمارے نہیں آپ کے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب احسن گجر کس قانون کے تحت گارڈین بن گئے؟ مجھے گارڈین شپ قانون سے آگاہ کریں، وزیراعلیٰ نے بتایا پولیس کو سیاست سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا نئی انکوائری کرانے جا رہے ہیں، احسن گجر نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے مکالمہ کیا کہ میں نے آپ کو مائی باپ کہا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا جب یہ کام کر رہے تھے اس وقت مائی باپ یاد نہیں آیا؟عثمان بزدار کو آئین کا آرٹیکل 62 نکال کر دکھائیں، وزیراعلیٰ کے ساتھ وکیل تعینات کر رہے ہیں، جو قانونی مشاورت دے گا، اتنا بڑا صوبہ قانون کی عملداری کے بغیر کیسے چل رہا ہے؟ آر پی او صاحب روسٹرم پر آئیں اور ساری کہانی بیان کریں، سپریم کورٹ نے ڈی آئی جی خالد ملک کو معالمے کی انکوائری کا حکم دےدیا۔