بھارت مقبوضہ کشمیر میں25لاکھ نئے ووٹرز کا اندراج کریگا۔
بھارت اپنے زیرقبضہ متنازع ریاست جموں و کشمیر میں 25 لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کرے گا۔مقامی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد آیندہ ہونے والے انتخابات پر اثرانداز ہونا ہے۔ بھارت نے 2019 میں اپنے زیرانتظام ریاست جموں وکشمیر کو دستور کے تحت حاصل نیم خودمختاری سے محروم کردیا تھا اورغیرکشمیریوں کو ووٹ ڈالنے اور وہاں زمین رکھنے یا خرید کرنے کی اجازت دینے کے لیے وفاقی آئین میں ترمیم کی تھی۔ جموں وکشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر ہردیش کمار نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ نومبرمیں ہونے والے مقامی انتخابات سے قبل خطے میں بیس لاکھ سے زیادہ نئے رائے دہندگان کا اندراج متوقع ہے۔ ان کے اندراج سے ووٹروں کی کل تعداد میں ایک تہائی سے زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔اس سے خطے کے موجودہ 76 لاکھ ووٹروں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہردیش کمار نے کہا کہ ہم حتمی فہرست میں (20 سے 25 لاکھ) نئے ووٹروں کے اضافے کی توقع کر رہے ہیں۔نئے اندراج ہونے والوں میں ریاست میں رہنے والے غیرکشمیری ووٹر بھی شامل ہوں گے۔ کشمیری اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس قاعدے کےاطلاق سے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت خطے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی اجازت دے گی تاکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری آزادی کی تحریک کو دبایاجا سکے گا۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ خطے میں اس کی پالیسیاں عام کشمیریوں کے مفاد میں ہیں۔حکومت کے اس اقدام پر کشمیرکی اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی ہے۔ریاست کی سابق وزیراعلی اور جموں وکشمیرپیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ اس کا مقصد انتخابی نتائج پراثراندازہوناہے۔ انھوں نے کہا کہ غیرمقامی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا مقصد بظاہرانتخابی نتائج پراثرانداز ہونا ہی ہے۔انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اصل مقصد مقامی لوگوں کو بے اختیارکرنا اور جبرواستبداد کے ذریعے جموں وکشمیر میں حکمرانی جاری رکھنا ہے۔جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ریاست کے ایک اورسابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔انھوں نے ٹویٹ کیا کہ کیا بی جے پی جموں وکشمیر کے حقیقی رائے دہندگان کی حمایت کے بارے میں اتنی غیرمحفوظ ہے کہ اسے نشستیں جیتنے کے لیے عارضی رائے دہندگان درآمد کرنے کی ضرورت پیش آگئی ہے؟.