سعادت حسن منٹو کی 64 ویں برسی
اردوافسانہ نگاری کو جلا بخشنے والے سعادت حسن منٹو کی 64 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری،بیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی۔منٹوایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے جس کے افسانہ مضامین اور خاکے اردو ادب کا اہم جزو ہیں۔ سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912ء کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے اس عظیم افسانہ نگار نے ہمیشہ معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔سعادت حسن منٹونے اپنے جذبات اور احساسات کو لفظوں کے موتی پرو کر ہمیشہ کے لئے امرکردیا۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں آتش پارے، ٹوبہ ٹیک سنگھ، دھواں اور ٹھنڈا گوشت بے حد مقبول ہوئے ۔ منٹو کے لکھےگئے مضامین ، خاکوں اور ڈراموں نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے مقالے میں خود لکھا تھا کہ عین ممکن ہے کہ سعادت حسن مر جائے لیکن منٹو زندہ رہے گا۔ اٹھارہ جنوری کو دنیافانی سے کوچ کرنے والے سعادت حسن منٹو نے اپنی قبر کا کتبہ بھی خود تحریر کیا تھا کہ یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں تھا