اردو ادب کے معروف افسانہ اور خاکہ نگار سعادت حسن منٹو کوہم سےجدا ہوئے 65 برس بیت گئے
اردو ادب کے معروف افسانہ اور خاکہ نگار سعادت حسن منٹو کوہم سےجدا ہوئے 65 برس بیت گئے ۔ سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ منٹو نےعلی گڑھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اورمصنف کی حیثیت سےعملی زندگی کاآغاز کیا۔ 1931 میں پہلا افسانہ "تماشا" لکھا جو سانحہ جلیانوالہ باغ کے متعلق تھا ۔ سعادت حسن منٹو صحافت کے علاوہ ریڈیو، فلموں اور ڈراموں سے بھی وابستہ رہے لیکن ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کے افسانے بنے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کی مدد سے معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو سب کے سامنے رکھا۔ سعادت حسن منٹونے اپنے جذبات اور احساسات کو لفظوں کے موتیوں میں پرو کر ہمیشہ کے لئے امرکردیا۔سعادت حسین منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت، دھواں اور آتش پارے سمیت کئی بہترین افسانے تخلیق کیے ۔ منٹو کے افسانے نہ صرف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں بلکہ ان کی سب ہی تحریریں بشمول افسانے، مضامین اور خاکے اردو ادب میں بےمثال حیثیت کے حامل ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے صرف واقعات پر ہی منحصر نہیں تھے ۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرےکے بدبودار پہلؤؤں کو اجاگر کیا۔ ان کی بے باک تحریروں کو تنقید کا نشانہ بھی بنا یا گیا اور ان کے کئی افسانوں پر مقدمے بھی چلے جس کی وجہ سے انہیں 6 بار جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی ۔ سعادت حسین منٹو نے ایک مقالے میں اپنی زندگی کے بارے میں کہا تھا کہ "عین ممکن ہے کہ سعادت حسن مر جائے لیکن منٹو زندہ رہے گا"۔ سعادت حسین منٹو نے 1932 سے 1955 تک اپنے 23 سالہ ادبی کیرئیر میں 241 افسانے، 59 ڈرامے،ایک ناول،51 آرٹیکل اور29ترجمےتحریرکیے۔منٹو1948 میں ہندوستان سے ہجرت کرکے لاہورآگئے اور باقی زندگی یہیں بسر کی۔ پاکستان آنے کے بعد انتہائی تنگ دستی کے حال میں منٹو محض 43 سال کی عمرمیں اس دنیافانی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ گئے ۔ حکومت ِ پاکستان نےانہیں "نشان امتیاز سے نوازا ۔ انہوں نے اپنی قبر کا کتبہ بھی خود تحریر کیا تھا جس پر لکھا ہے کہ "یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں تھا۔