ایک طرف انیس بانوے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم اور اب کی حیران کر دینے والی دوہزار سترہ کی پاکستان ٹیم،
انیس سو بانوے کے نائب کپتان میانداد اور دوہزار سترہ کے کپتان سرفراز احمد میں مماثلت ،، دونوں ہی کا تعلق کراچی سے،،، بانوے میں میانداد نے اہم مہرے کا کردار نبھایا، پچس سال بعد سرفراز نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔۔ورلڈ کپ میں جیتنے والی ٹیم میں لیجنڈری وسیم اکرم سٹرائیکر تھے،،، پچیس سال بعد محد عامر وہی کردار نبھا رہے ہیں،،، وسیم نے بھی باؤلنگ اور شاندار بیٹنگ سے میچ جتوائے، عامر نے بھی بہترین باؤلنگ کے بعد بھرپور بیٹنگ سے ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچایا
عاقب جاوید نے حسن علی کے جشن میں بھی مشابہت کا ایک حسین اتفاق پایا جاتا ہے،،،انضمام الحق نے 1992 ورلڈ کپ میں اپنی پاور ہٹنگ سے ٹیم کو سیمی فائنل میں کامیابی دلوائی فخر زمان نے بھی پاور ہٹنگ کے ذریعے چیمپینز ٹرافی میں بہترین سٹارٹ دیے،،، کرکٹ میں ڈبیو کے چند ہی دنوں میں چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کا اہم ستون بن گئے ہیں۔ رمیز راجہ کی طرح اظہر علی پاکستان ٹیم کے اوپنر ہیں،، دونوں کو لگاتار پرفارمنس نہ دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے،،، مشتاق احمد نے 1992 میں ٹیم کی بولنگ اٹیک کو مضبوط کیا اور شاداب خان نے بہت کم عمری میں یہ کردار ادا کیا۔