جس کا تھا سب کو انتظار اس فیصلے کی گڑھی آن پہنچی، ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کیس کے فیصلے کو ایک دن رہ گیا
اپریل دوہزار سولہ،، پانامہ کی ایک لا فرم موساک فونسیکا نے دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کی ٹیکس چوری کا پول کھولا تو دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا،، پاکستان میں شریف خاندان سمیت کئی اہم شخصیات کی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہوئیں تو جیسے ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی،،اپوزیشن کے شور مچانے اور وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر نواز شریف نے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا، جس کے بعد معاملہ ٹی او آرز پر لٹکا رہا، حکومت اور اپوزیشن کی طویل نشستیں بھی بے سود رہیں،،، تحریک انصاف سڑکوں پر آئی،، دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال دی گئی، اسی دوران، یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کمیشن بنانے پر اتفاق کیا۔۔۔تین نومبر دو ہزار سولہ کو سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی باقاعدہ سماعت ہوئی۔ پندرہ نومبر کو سماعت میں اس وقت نیا موڑ آیا جب وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل نے قطری شہزادے کا خط عدالت میں پیش کیا، قطر سے خط آیا تو پی ٹی آئی سینکڑوں دستاویزات لے آئی، اٹھارہ نومبر کو عمران خان کے وکیل حامد خان کیس سے الگ ہوئے۔ تیس نومبر کو پہلی بار نعیم بخاری نے پی ٹی آئی کی جانب سے دلائل دیئے، پانچ دسمبر کو حسین نواز کے وکیل نے لندن فلیٹس کی رجسٹریاں جمع کرائیں جس کے چار روز بعد چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے، نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اکتیس دسمبر دو ہزار سولہ کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا بینچ بنایا۔ تین جنوری دوہزار سترہ کو وزیر اعظم، مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز نے وکیل بدل لئے۔ چار جنوری دو ہزار سترہ سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی۔ چھبیس جنوری کو حسین نواز نے ایک اور قطری خط اور جدہ فیکٹری کا ریکارڈ پیش کر دیا۔ یکم فروری کو جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف ہوئی تو سماعت ملتوی ہو گئی۔ 9 فروری کو فاضل جج کی صحتیابی کے بعد پانچ رکنی بینچ دوبارہ مکمل ہوا۔ یوں پندرہ فروری سے سماعت کا سلسلہ پھر چل پڑا۔ 21 فروری کو نیب کے سربراہ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر نہ کرنے کا بیان دیا۔ عدالت عظمیٰ نے تیئس فروری کو سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کر لیا۔