تھرپارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے
تھر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ رک سکا نہ معصوم بچوں کی بلکتی اور سسکتی آوازیں سندھ حکومت کے کانوں تک پہنچ سکیں۔۔۔ غذائی قلت اور وبائی امراض معصوم بچوں کے گلے گھونٹنے میں مصروف ہے۔۔رواں سال دوسرے مہینے تک جاں بحق ہونے والے بچوں یک تعداد ایک سو ستر سے تجاوز کر گئی ہے، ضلع بھر کے ہسپتالوں میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے شکار اڑھائی سو سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔دور دراز دیہات میں میڈیکل ٹیمیں تاحال نہ پہنچ سکیں۔ دوسری جانب امدادی گندم کی تقسیم کا عمل سست روی کا شکار ہے، جبکہ ڈیپلو کے گودام میں بھی امدادی گندم ختم ہوچکی ہے،بچوں کی ہلاکتوں پر سندھ حکومت مسلسل خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، بے بسی کی تصویر بنے تھر کے باسیوں کیلئے امداد کے دعوے صرف وعدوں اور کاغذوں تک محدود ہیں
تھرمیں بچوں کی ہلاکت سے معتلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائیکورٹ نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ طلب کر لی،، عدالت نے کیس سماعت سترہ مارچ تک ملتوی کردی
سندہ ہائی کورٹ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ تھر میں غذائی قلت کے باعث ایک سو چھیاسٹھ بچوں کی اموات ہوچکی ہیں،، جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا،،سرکاری وکیل کا کہناتھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر جوڈیشل کمیش قائم کردیا گیا ہے اور کمیشن تین ہفتوں میں رپورٹ پیش کرے گا،،عدالت میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا بچوں کی اموات پر حکومت نے فوری اقدامات کیوں نہیں کئے،،عدالت نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ طلب کرتےہوئے17 مارچ تک سماعت ملتوی کردی