سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس میں آئی ایس آئی کی رپورٹ غیرتسلی بخش اور نامکمل قرار دے دی
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کی۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل نے آئی ایس آئی کے ساتھ میٹنگ کی۔ کیا اٹارنی جنرل آفس آئی ایس آئی سے مطمئن ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کی معلومات جان کرمجھے تشویش ہے۔ کیاکسی کوریاست پاکستان کا کوئی خیال ہے۔ وزارت دفاع بھی ہماری طرح عوام کوجوبدہ ہے۔ ہم توخفیہ بریفنگ کے لیے بھی تیار ہیں نمائندہ وزارت دفاع نے آگاہ کیا کہ خادم رضوی چندا وصول کرتے ہیں ,جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا بتائیں خادم رضوی کی گزربسر کیسے ہورہی ہے ۔ رپورٹ میں اس بارے تفصیلات کہاں ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کہا کہ تفصیلی رپورٹ دی ہے۔ خادم رضوی پیشے کے اعتبار سے خطیب ہیں۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے استفسار کیا کہ کیا خطیب کی کوئی تنخواہ ہوتی ہے۔ خادم رضوی ٹیکس دیتاہے یانہیں اسکاروزگارکیا ہے۔ عدالت عظمی نے آئی ایس آئی کی رپورٹ غیرتسلی بخش اور نامکمل قرار دے دی۔ جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی باتیں سن کراب میں ملک کے مستقبل کے لیے فکرمند ہوں۔ اربوں کی جائیداد کوآگ لگادی گئی۔ عدالت نے پیمراکی جانب سے رپورٹ نا آنے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے,پیمراکو دس روزمیں رپورٹ جمع کروانے کاحکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے آئی بی کی جانب سے رپورٹ براہ راست عدالت میں جمع کروانے پر ناراضی کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائر نے کہا کہ آئی بی کی رپورٹ میں کچھ خفیہ نہیں اخباری خبریں ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آفس سے سوشل میڈیاپرانتہاپسندی روکنے کے حوالے سے اقدامات پربھی رپورٹ طلب کرلی۔ کیس کی سماعت دوہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی