کورونا کےمشتبہ مریض کا سرکاری لیب میں ٹیسٹ مثبت، نجی میں منفی آتاہے :سپریم کورٹ
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا5 رکنی لارجر بنچ کرونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے، اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کورونا سے متعلق اخراجات پر وضاحت کے لیے چئیرمین این ڈی ایم اے عدالت میں موجود ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں، ہماری تشویش سروسز کے معیار پر ہے، کورونا کے مشتبہ مریض کا سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور پرائیویٹ سے منفی آتا ہے، سپریم کورٹ کے لاہور کے رجسٹری ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہمارے ملازمین کا سرکاری لیب سے مثبت اور نجی سے منفی آیا۔کرونا کے مریض کو دنیا جہان کی ادویات لگا دی جاتی ہیں،لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کورونا نہیں لیکن ڈاکٹر چھوڑ نہیں رہے تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا غریب ملک ہے، ہم پیسے سے کھیل رہے ہیں لوگوں کا احساس نہیں، چین میں ایک ہی پارٹی این ڈی ایم اے کو سامان بھجوا رہی ہے، مقامی سطح پر سامان کی تیاری کیلئے ایک ہی مشین منگوائی گئی، تمام طبی آلات پاکستان میں ہی تیار ہو سکتے ہیں، وقت آ رہا ہے، ادویات سمیت کچھ بھی باہر سے نہیں ملے گا، پاکستان کو ہر چیز میں خود مختار ہونا ہوگا۔سپریم کورٹ نے کہا پاکستان سٹیل چل پڑے تو جہاز اور ٹینک بھی یہاں بن سکتے ہیں ، تھرڈ کلاس چیزیں باہر سے منگوائی جاتی ہیں، پاکستان میں اکثر مال سکریپ شدہ ہی بھیجا جاتا ہے، حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کے حالات آپ کے سامنے ہیں، ایک بار جو قرنطینہ پہنچ گیا پیسے دیئے بغیر باہر نہیں آسکتا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ 1187 وینٹی لیٹرز میں سے 300 پاکستان پہنچ چکے۔ چیف جسٹس نے کہا امریکا میں ہر چیز کا معیار دیکھا جاتا ہے، یہاں ایسا نہیں، ہمیں معیاری سامان چاہیئے، لوگوں کو جانوروں سے بدتر رکھا جا رہا ہےاین ڈی ایم اے شہروں میں کام کر رہا ہے، دیہات تک تو گیا ہی نہیں، جتنے قرنطینہ سینٹرز قائم ہوئے ہیں وہ صرف شہروں میں ہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان میں کورونا کے 46 ہزار مریض جبکہ اموات ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں، دنیا میں 3 لاکھ اموات کورونا وائرس سے ہوئی ہیں، لوگ ہسپتال میں کسی اور مرض کے علاج کیلئے جاتے ہیں، لوگوں کو کورونا ٹیسٹ کا کہہ دیا جاتا ہے، حکومت کوشش کر رہی ہے او پی ڈی کو مکمل کھولا جائے، حکومت کیلئے بڑا آسان ہے کہ لاک ڈاؤن لگا دے، مگر حکومت نے یہ بھی دیکھنا ہے لوگ بھوک سے نہ مرجائیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فاقہ کشی سے لوگوں کو بچانے کیلئے عدالت نے راستہ کھولا، کل یہ تاثر گیا کہ کورونا سنجیدہ مرض نہیں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کورونا وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جون کا مہینہ کورونا کیلئے انتہائی خطرناک ہے، لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری دفاتر کھول کر نجی ادارے بند کر رہے ہیں، سندھ حکومت کے فیصلوں میں بڑا تضاد ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا وفاقی حکومت طبی ماہرین کی رائے کے برخلاف جا رہی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہفتہ اتوار کو کاروبار کھولنے کا حکم صرف عید تک ہے، ہماری پورے پاکستان پر نظر ہے، آنکھ، کان اور منہ بند نہیں کرسکتے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا عدالت ہماری گزارشات بھی سن لے، عدالت ماہرین کی کمیٹی بنا کر رپورٹ طلب کرلے، لاک ڈاون ختم ہوگیا، اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ لاک ڈاؤن پہلے جیسا مؤثر نہیں رہا، بیوٹی سیلون اور حجام کی دکانیں کھل رہی ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا یہ ہماری وجہ سے نہیں کھل رہے ، عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہا، سندھ حکومت نے تمام سرکاری دفاتر کھول دیئے ہیں۔عدالت نے آئندہ سماعت 8 جون تک ملتوی کردی ۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا کے 1841 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ کورونا سے مزید 36 افراد جاں بحق ہو گئے جس کے بعد تعداد939 ہو گئی ہے ۔