جہانگیرترین نااہلی کیس: فیصلہ اگرخلاف بھی آجائے تو قبول کرناچاہیے۔ چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے نااہلی کیس میں جہانگیرترین کے وکیل کی طرف سے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن قانون (ایس ای سی پی) کے سیکشن 15 اے اور 15 بی آئین سے متصادم قرار دینے کے موقف پراٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ہے جبکہ دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاہے کہ اگر کسی نے تنقید کرنی ہے توفیصلہ پر ہونی چاہیے فیصلہ اگرخلاف بھی آجائے تو قبول کرناچاہیے ، لوگ میسج کرتے ہیں ایکشن نہ لینے پر آپ کی ریپیوٹ خراب ہورہی ہے پارلیمنٹ کے لوگ بھی باعزت ہیںلیکن ہروقت عدلیہ کونشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں عدالت نے ملک کامفاد دیکھناہے جذبات پرفیصلے نہیں کرنے ہوتے ،معاشرے میں بہت سے معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے ،ججزاور عدلیہ کااحترام لازمی ہے ، عدالت میڈیاکواحتیاط سے کام لینے کاکہتی ہے کیونکہ جج اوروکیل کی دلیل کو عام بندہ نہیں سمجھ سکتا اور ہمارے معاشرے میں بہت سی چیزوں کو دیکھنا ہے،پارلیمنٹرینز کی بھی تذلیل نہیں کرنی چاہیئے اورہمارے ججز بھی ادارے ہیں،جہاں تنقید بنتی ہے کی جائے،کوئی حرج نہیں، عدالت نے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے قانون کے معاملے پر اٹارنی جنرل.کونوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیرتک ملتوی کردی ہے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کی اس دوران چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے ایسی آبزرویشن نہیں دی جوگزشتہ روز ہائی لائیٹ کی گئی اور ہماری آبزرویشن کامطلب فیصلہ نہیں ہوتا عدالتی آبزرویشن چیزوں کوسمجھنے کے لیے ہوتی ہے ہم انتہائی احتیاط اور محتاط انداز سے کاروائی کوچلارہے ہیں ، جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیرنے کہاکہ عدالت کے سوالات میرے لئے بہت معاون ثابت ہوتے ہیں ،جب سے کیس شروع ہواہے اخبار پڑھنابندکردیاوکیل جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ یقین ہے میڈیاہیڈ لائین سے قطع نظر عدالت نے اپنافیصلہ کرناہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ سوال تب پوچھتے ہیں جب کچھ سمجھ نہ آئے ، سکندر بشیر نے کہاکہ ایس ای سی پی کے معاملہ کو بند اور ختم کرنا چاہتے ہیں،کیونکہ جہانگیر ترین نے معاملہ کو ختم کرنے کیلئے ایس ای سی پی کو ازالہ کہ رقم ادا کی اور جہانگیر ترین کے پاس ایس ای سی پی دفاع کیلئے جواز موجود تھا،وہ کسی تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے یہ انکی ایمانداری تھی،آرٹیکل 62 ون ایف ایمانداری کو ریگولیٹ کرتا ہے،جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو کے شیئر ہولڈر تھے،اور انہوں نے بطور ڈائریکٹر اندرونی معلومات پر کمپنی کے شیئرز خریدے،سکندر بشیر نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 62 ان کا راستہ روکتا ہے جو صادق آمین نہ ہوں جبکہ ایس ای سی پی کا سیکشن 15 اے اور 15 بی آئین سے متصادم ہے،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کے ان سیکشنز کو چیلنج کرنے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا پڑیگا،جس پر سکندر بشیر نے کہاکہ اٹارنی جنرل کومعاونت کیلئے پہلے ہی نوٹس جاری ہوچکا ہے،تو چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کے سیکشنز پر الگ سے ایک نوٹس کرنا پڑیگا۔فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ جہانگیرترین ایس ای سی پی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور غیرآئینی قانون پرنااہلی نہیں ہوسکتی ،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اگرقانون غیرآئینی ناہواتوپھرآپ کا موقف کیاہوگاوکیل نے جواب دیا کہ میراموقف ہوگاکہ جہانگیرترین کے کاغذات نامزدگی کوکسی نے چیلنج نہیں کیا،جہانگیرترین کے خلاف کسی عدالتی فورم کافیصلہ بھی نہیں ہے چیف جسٹس نے کہاکہ الزام ہے کہ جہانگیرترین نے اپنے ملازمین کے ذریعے حصص خریدے یہ بھی الزام ہے ملازمین کے پاس حصص خریدنے کے لیے رقم نہیں تھی تیسراالزام ہے ملازمین جہانگیرترین کے بے نامی دارتھے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے ایمانداری کاجائزہ لیناہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ والد گھر پر بچوں کو کہہ رہے ہیں باہر والے کو بتا دوں پاپا گھر پر نہیں ہے، یہ بھی ایک قسم کی بے ایمانی ہے، کیا گھر پر نہ ہونا کہہ دینا صادق اور امین کے زمرے میں آتا ہے، دیکھنا ہوگا ارکان پارلیمان کی نااہلی کے لیے ایمانداری کی نوعیت کیا ہوگی، چیف جسٹس کا کہناتھا کہ بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، اس لئے آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے ایک لفظ لفظ کا جائزہ لینا ہوگااس لئے فریقین کے وکلا آرٹیکل باسٹھ ون پر معاونت کریں،سکندربشیر نے جواباکہاکہ آرٹیکل 62ون ایف کااطلاق صرف کرپشن پرنہیں ہوتا عدالت نے جعلی ڈگری پرآرٹیکل 62پرنااہل کیا جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم آرٹیکل 62کے تحت ایمانداری کے معیار اورسکوپ کوسمجھناچاہتے ہیں دونوں مقدمات پرعدالت نے ابتک بہت وقت صرف کیاہے یہ عدالتی کاروائی ٹرائل سے بڑھ کر ہے چیف جسٹس کا کہناتھا کہ آئے روز نئی چیزیں عدالت کے سامنے آرہی ہیں ویل جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ ڈیکلیریشن ٹرائل کے بعد دیا جاسکتا ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل 184 تین کے تحت بھی ٹرائل ہی ہورہا ہے، ہم کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رولز نہیں بنا سکتے،چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت میں بیٹھے چند دوستوں کے پاس میرا موبائل نمبر ہے،وہ دوست بھی مجھے مقدمات سے متعلق چیزیں وٹس ایپ کردیتے ہیں، وہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ان کے موقف کو سپورٹ کررہی ہوتی ہیں، سکندر بشیرنے کہاکہ جہانگیر ترین ایم این اے ہیں انہوں نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل باسٹھ کا جائزہ کیس ٹو کیس لیا جاسکتا ہے، کیا چیٹنگ اور فراڈ بے ایمانی ہے،سکندر بشیر نے کہاکہ چیٹنگ اور فراڈ کسی حد تک ایمانداری سے متعلقہ ہے،اس دوران چیف جسٹس نے واضح کیا کہ یہ باتیں جہانگیر ترین کے مقدمے سے نہیں ہیں،جب سکندر بشیر نے کہاکہ ایمانداری سے متعلق ذاتی فیصلے کر رہے ہیںتو چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی آبزرویشن پر جائزہ اپنے انداز سے نہ کریں، ججز جس طرح سے دیکھتے ہیں اس طرح دوسراکوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ٹھیک ہے عدالتی کاروائی رپورٹ کرنے والے کافی عرصے سے رپورٹنگ کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ تنقید کرنی ہے توفیصلہ پر ہونی چاہیے فیصلہ اگرخلاف بھی آجائے تو قبول کرناچاہیے چیف جسٹس نے کہاکہ لوگ میسج کرتے ہیں ایکشن نہ لینے پر آپ کی ریپیوٹ خراب ہورہی ہے چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ کے لوگ بھی باعزت ہیںلیکن ہروقت عدلیہ کونشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں کہاجاتاہے میری پوزیشن خراب ہورہی ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے ملک کامفاد دیکھناہے جذبات پرفیصلے نہیں کرنے ،معاشرے میں بہت سے معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے ،ججزاور عدلیہ کااحترام لازمی ہے چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت میڈیاکواحتیاط سے کام لینے کاکہتی ہے کیونکہ جج اوروکیل کی دلیل کو عام بندہ نہیں سمجھ سکتا اور ہمارے معاشرے میں بہت سی چیزوں کو دیکھنا ہے،پارلیمنٹرینز کی بھی تذلیل نہیں کرنی چاہیئے اورہمارے ججز بھی ادارے ہیں،جہاں تنقید بنتی ہے کی جائے،کوئی حرج نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے یہ بھی میسجز آتے ہیں موجودہ صورتحال پر کاروائی کیوں نہیں کرتے میں نے تودیکھنا ہے کہ ملک اور ادارے کے مفاد میں کیا ہے،تنقید کرنے والے یہ بھی دیکھیں کہ یہ ان کا بھی ادارہ ہے،میں جذباتی ہوکر کام نہیں کرتا،سکندر بشیرنے کہاکہ عدالت کے ایمانداری سے متعلق فیصلوں کوپڑھاہے عدالتی فیصلے میں ڈکشنری سے معانی بھی لیاگیا اس دوران عدالت نے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے قانون کے معاملے پر اٹارنی جنرل.کونوٹس جاری کردیا اورکیس کی مزید سماعت پیرتک ملتوی کردی گئی ۔