محصولات اور امداد کی کمی فلسطینی معشیت کا گلا گھونٹ رہی ہے، 1.8 بلین ڈالر کی فوری ضرورت درپیش ہے: عالمی بینک
عالمی بینک نے کہا ہے کہ محصولات اور امداد کی کمی فلسطینی معشیت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔عالمی بینک کی فلسطین پر جاری کی گئی رپورٹ میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے مغربی کنارہ اور غزہ کنتھن شنکر نے کہا ہے کہ فلسطین کو گزشتہ ماہ اسرائیل کی جانب سے فنڈزکے اجراء کے باوجود 1.8 بلین ڈالر کے لیکوئڈیٹی کرنچ یا سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے باعث صدر محمود عباس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نصف تک کم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ فلسطینی حکومت کے مالیتی بحران کی وجہ سے سال کی دوسری سہ ماہی میں فلسطینی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 26 فیصد پر آ چکی ہے۔اسرائیل بندرگاہ پر فلسطینی مارکیٹس کے لئے آنے والے سامان پر ہر ماہ تقریباً 190ملین ڈالر کسٹمز ڈیوٹیز اکٹھی کرتا ہے اور اس کو فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کرنا ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق فلسطین کو رواں سال فروری میں اس وقت سے سرمائے کی کمی کا بحران درپیش ہے جب اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو فلسطین کی مد میں اکھٹے ہونے والے ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز کی منتقلی روک دی۔ فروری میں اسرائیل نے ان رقوم میں سے 10 ملین ڈالر کٹوتی کا اعلان کیا جس پر فلسطینی اتھارٹی نے احتجاجاً کوئی بھی فنڈ لینے سے انکار کر دیا تھا ۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اتنی ہی رقم ہر ماہ اسرائیل کے ہاتھوں قید فلسطینیوں کے خاندانوں کے کفالت کے لئے ادا کرتا ہے جو کہ اس کے نزدیک ان قیدیوں کو ہیرو کا اسٹیسٹس دینا اور دہشتگردی کو فروغ دینا ہے۔کنتھن شنکر نے کہاہے فلسطین کے معاشی حالات بہت خراب ہیں، سرمائے کی انتہائی کمی کی وجہ سے تنخواہیں دینا محال اور پبلک سروسز چلانا مشکل ہو گیا ہے ۔یہ رپورٹ آئندہ ماہ نیویارک میں فلسطین کے عالمی ڈونر گروپ ایڈ ہاک لیژن کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔