عدلیہ ڈیلیور نہیں کرے گی تو جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کرپائیں۔ چیف جسٹس
چارسدہ میں جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتےہوئے چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ انسٹی ٹیوشن عمارت سے نہیں بنتے،جو قومیں ایڈہاک ازم پر چلتی ہیں وہ ترقی نہیں کرتیں،چیف جسٹس نے کہا ادارے ترقی کی ایک مثال ہوتے ہیں،وقت آگیا ہے کہ اب ہماری عدلیہ کو ڈیلیور کرنا پڑے گا، اگر عدلیہ ڈیلیور نہیں کرےگی تو ہم شاید جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کرپائیں۔
جسٹس ثاقب نثارنےمزیدکہا کہ تعلیم کے بغیر دنیا میں کوئی قوم اور ملک ترقی نہیں کرسکتا،وزیراعلیٰ خیبر پختونخواسےپوچھا کتنے نئے تعلیمی ادرے قائم کیے، اس پرکوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا،وقت آگیا ہے اپنے بچوں اور قوم کے لیے قربانی دینا پڑے گی، دیانت داری، بہترین صلاحیت اور ایمانداری کے ساتھ رات دن محنت کریں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا ہمارے قانون بہت پرانے ہیں، ان قوانین کواپ ڈیٹ کرنا مقننہ کا کام ہے،ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا، وہ کیوں نہیں ملتا، اکیلا اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پارہا،انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف کی موت ہے،یہ نظام کا قصور ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
آپ کے پاس نہ لیب ہے، نہ اعلیٰ مشینری تو کیسے پانی ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نےسپریم کورٹ پشاوررجسٹری میں عطائی ڈاکٹروں اور صاف پانی کی فراہمی سمیت مختلف کیسز کے حوالے سے کیس کی سماعت کی، اس دوران چیئرمین ہیلتھ کیئرکمیشن پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نےچیئرمین ہیلتھ کمیشن سےاستفسارکیاصوبے میں کتنے اتائی ڈاکٹر ہیں،جس پرچیئرمین ہیلتھ کمیشن نےعدالت کوبتایا کہ صوبے میں پندرہ ہزاراتائی ڈاکٹر ہیں،،چیف جسٹس نے چیئرمین ہیلتھ کیئر کمیشن سے سوال کیا آپ نے کتنی کارروائیاں کیں،،کتنے عطائی ڈاکٹروں پر پابندی لگائی ہے، جس پر چیئرمین ہیلتھ کیئر کمیشن نے جواب دیا 122 پرپابندی لگائی ہے
چیف جسٹس نےچیئرمین ہیلتھ کیئرکمیشن سےاستفسار کیا آپ کی ڈیوٹی ہے کہ ایکشن لیں، آپ تنخواہ کتنی لیتے ہیں؟ چیف جسٹس کے استفسار پر چیئرمین ہیلتھ نے جواب دیا 5 لاکھ روپے، جس پر چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تنخواہ آپ کی 5 لاکھ روپے اور کام صفر ہے، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ایک ہفتے میں اتائیوں کے خلاف ایکشن چاہئیں، کوئی اسٹے آرڈر جاری نہیں کریں گے، کسی نے اسٹے آرڈر لینا ہے تو سپریم کورٹ آئے، پورے صوبے میں اتائیوں کو بند کریں۔ مجھے ان کے خلاف انکوائری رپورٹ چاہئیے۔اگرہیلتھ کیئرکمیشن کام نہیں کرسکتا تو استعفیٰ دے۔
صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پانی بھریں اور لیبارٹری سے چیک کروائیں، چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا آپ کے پاس نہ لیب ہے، نہ اعلیٰ مشینری تو کیسے پانی ٹیسٹ کرواتے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے پشاور کے مختلف مقامات سے پانی کے نمونے لینے کا حکم دیتے ہوئے پشاور کا پانی پنجاب سے ٹیسٹ کروانے کا حکم دے دیا۔