پی اے سی ، نیشنل بینک کا پاسپور ٹ کی مددمیں 42کروڑ روپے غیر قانونی طور پر وصول کر نےکا انکشاف
اسلام آباد (آئی این پی)قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں نیشنل بینک کی طرف سے صارفین سے پاسپورٹ وصولی کیلئے سروسز چارجز کی مد میں 2006 سے25روپے فی کس فیس کے حساب سے 42کروڑ روپے غیر قانونی طور پر وصول کر نے کا انکشاف کیا گیا، کمیٹی نے اضافی وصولی کی وزارت خزانہ سے منظور ی لینے اور پاسپورٹ کلیکشن کیلئے دیگر بینکوں کو بھی اجازت دینے اور نیشنل بینک کے آڈٹ کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر نے کی سفارش کر دی جبکہ وزارت پورٹس اینڈ شپنگ سمیت دیگر متعلقہ وزارتوں سے ماہی گیری کے شعبے کی بہتری کیلئے اور نادرا کے تمام تر معاملات پر آئندہ اجلاس میں تفصیلی بریفنگ طلب کر لی گئی۔قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہا?س میں ہوا جس میں ممبران کمیٹی محموداچکزئی ، شیخ روحیل اصغر، عذر ا فضل ، شاہدہ اختر ، سید نوید قمر، شفقت محمود اور رشید گوڈیل ، وزارت پورٹ اینڈ شپنگ اور ذیلی اداروں ، وزارت خزانہ ،وزارت داخلہ اور ذیلی اداروں سمیٹ آڈٹ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت پورٹ اینڈ شپنگ اور وزارت داخلہ کے مالی سال 2013-14کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کے حکام کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی فش ہاربر اتھارٹی کے 60 کروڑ قرض کی واپسی کیلئے ای سی سی کو سمری بھیجوائی،ای سی سی سے درخواست کی ہے کہ اس رقم کو گرانٹ میں تبدیل کیا جائے ابھی ،ادارہ پوری طرح فنکشنل نہیں ہم ادائیگی نہیں کر سکتے ،فشنگ سیکٹر کا ملکی جی ڈی پی میں ایک فیصد حصہ ہے ، تیس کروڑ روپے سے زائد کی برآمدات ہوئی ہیں ،ابھی فشنگ کے لائسنس نہیں دیے جا رہے ، اس وقت تک 82 کشتیاں کراچی فش ہاربر اتھارٹی میں آئی ہیں ، ہمیں اپنا سٹاک مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے کہا کہ کراچی فش ہاربر اتھارٹی میں چھ چین کے فشنگ ٹرالر کھڑے ہیں لیکن چینی ٹرالر ز سمیت کسی کو لائسنس نہیں دیا جا رہا، فش ہاربر اتھارٹی کا نہ بورڈ مکمل ہے نہ ہی بورڈ ممبر تعینات کیا جا رہا ہے۔ جس پر حکام نے کہا کہ جب تک نئی پالیسی نہیں بنتی لائسنس نہیں دیے سکتے۔ سیکرٹری وزارت پورٹس اینڈ شپنگ نے کہا کہ صفائی کا نظام بہتر نہ ہونے سے یورپی یونین نے بر آمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے،سالانہ 36کروڑ70لاکھ روپے کی مچھلی برآمد کی جارہی ہے۔ چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے کہا کہ ایکسپورٹ بہت کم ہے، وزارت صوبوں سے تعاون بڑھائے، دنیا کے کئی ممالک کے جی ڈی پی میں فشنگ سیکٹر کا بہت اہم کردار ہے، ہماری برآمدات بھی کم جبکہ فشنگ سیکٹر میں جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد حصہ ہے ، آپ لوگ باتیں کرتے ہیں پالیسی بنانے پر کوئی توجہ نہیں۔ وزارت پورٹس اینڈ شپنگ کے حکام نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کی سربراہی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ کے پاس ہے ، جس کے دو اجلاس ہو چکے ہیں فشنگ کے شعبے میں بہتری کیلئے دونوں صوبوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جا ئے گا۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے سیکرٹری وزارت پورٹس اینڈ شپنگ،چیف سیکرٹری بلوچستان، چیف سیکرٹری سندھ ،وفاقی سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی اور سیکرٹری تجارت سے ماہی گیری کے شعبے کی بہتری کیلئے 12جنوری کو تفصیلی بریفنگ طلب کر لی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ماہی گیری اہم شعبہ ہے اس سے متعلق تفصیلی جائزہ لینا ہو گا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پورٹ قاسم اتھارٹی زمین ایکسپو سٹی کے واجبات وصول نہ کر سکی،ساڑھے انیس کروڑ سے زائد کی رقم دس سال سے نہ مل سکی۔ حکام پورٹ قاسم اتھارٹی نے بتایا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خدارا اچھے وکیل کریں، ایسا وکیل جو جج کو سمجھائے کے اسٹے نہ دیں اس میں سرکار کا نقصان ہے، جج اور پی اے سی سب کی تنخواہیں سرکار اور عوام کے پیسے سے آتی ہیں، تو پھر سرکار کا نقصان کیوں ہو، عدالتوں میں ساڑھے چار سو ارب سے زائد کے مقدمات ہیں، کب تک سرکار کے اربوں روپے پھنسے رہیں گے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک پاسپوٹس وصولی سروسز چارجز کی مد میں صارفین سے 25روپے فیس 2006سے وزارت خزانہ سے منظوری لیے بغیر وصول کر رہا ہے، جس کی ذریعے425ملین سے زائد کی رقم وصول کی گئی، 1986سے قبل یہ فیس ایک روپے تھے، 1986میں بڑھا کر 2روپے کر دی گئی تاہم 2006میں اچانک 23 روپے بڑھا کر یہ فیس 25روپے کر دی گئی جس کی وزارت خزانہ سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔سیکرٹری وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ نیشنل بینک پاسپوٹس سروسز چارجز کی مد میں 2006سے صارفین سے 23روپے غیر قانونی چارج کرتا رہا، پہلے دو روپے کی منظور ی تھی،2006کے بعد سروسز چارجز میں اضافے کی منظور ی نہیں لی گئی۔ تاہم ابھی منظوری کا کام اخری مرحلے میں ہے۔ ڈی جی پاسپورٹ نے کہا کہ یہ فیس ختم نہیں کر سکتے، نیشنل بنک تو 25روہے کو بھی کم کہتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ادارے غیر قانونی کام کریں گے تو عام آدمی کیسے پیروی کرے گا ،نیشنل بینک حکومتی ادارہ ہے اسے پاسپورٹس مفت بنانے چاہیں ،پنشنزسمیت تمام رقم نیشل بینک کے پاس جاتی ہے ، حکومتیں عوام کو سہولت فراہم کرنے کیلئے ہوتی ہیں عوام لوٹنے کیلئے نہیں۔پی اے سی نے امیگریشن حکام کو ہدایات کی کہ وزارت خزانہ سے اضافی وصولی کی منظور ی لی جائے۔ڈی جی پاسپورٹس نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 45لاکھ پاسپورٹس بنائے، 22ارب کا ریونیو وصول ہوا۔ مختلف شہروں میں 65 سے زائد نئے پاسپورٹ آفس کھولے گئے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ پاسپورٹ کلیکشن اور پینشن کا کام صرف نیشنل بینک کے پاس ہے ، دوسرے بینکوں کو بھی اجازت دی جائے۔کمیٹی نے سفارش کی کہ پاسپورٹ کلیکشن کیلئے 4سے5بڑے بینکوں کو بھی اجازت دی جائے۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ خفیہ اداروں کے آڈٹ کا ہمیں اختیار نہیں، اس حوالے سے عدالتی حکم نامہ بھی آیا ہے ہم پر لگائی گئی قدغن کو کابینہ ڈویڑن میں چیلنج کریں گے اور ترامیم لائیں گے۔ ممبران کمیٹی نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ آڈٹ سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے،کوئی بھی ادارہ ہو آڈٹ ہونا چاہیے اگر کوئی حساس معاملہ ہو تو عوام کے سامنے بےشک نہ لایا جائے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک کے آڈٹ کا حکم ہے تاہم نیشنل بینک نے سندھ ہائیکورٹ سے اسٹے آڈر لیا ہوا ہے اور آڈٹ نہیں کراتا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر کوئی ادارہ آڈٹ نہیں کراتا تو کوئی تو گڑبڑ ہے۔ کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ کابینہ ڈویڑن میں چیلنج کرنے کی بجائے آڈٹ خفیہ اداروں اور نیشنل بینک کے آڈٹ کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے۔ کمیٹی نے نادرا کے تمام تر معاملات پر بھی آئندہ اجلاس میں تفصیلی بریفنگ طلب کر لی۔ممبران کمیٹی نے کہا کہ اپنی شہریت ختم کرنے کا اختیار ہم کسی کو نہیں دے سکتے۔