امریکا کی حزب اللہ کے خلاف نئی پابندیوں کے نفاذ کی تیاری

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہناہے کہ واشنگٹن مشرق وسطی کے چھوٹے ملک لبنان میں استحکام کا خواہاں ہے اور بیروت کے ساتھ کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا۔ لبنان میں موجودہ سیاسی اور سیکیورٹی بحران کو مزید ہوا دینے کوشش نہیں کی جائے گی مگر ساتھ ہی ساتھ لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو نکیل ڈالنے کے لیے اس پر پابندیوں کے نفاذ میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی جائےگی۔امریکی حکام نے کہا کہ لبنان کے حوالے سے صدرڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سعود الدین الحریری کی حکومت کے حوالے سے محتاط طرز عمل کامظاہرہ کررہی ہے۔ اگرچہ امریکا کو سعد حریری کی حکومت میں حزب اللہ کی شمولیت پر تحفظات ہیں۔سابق امریکی صدر باراک اوباما اور موجودہ حکومت کی لبنان کے حوالے سے پالیسی میں کافی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ باراک اوباما حزب اللہ کے لبنان میں سیاسی کردار پر شاکی نہیں تھے تاہم انہوںنے کھل کر کہا تھا کہ حزب اللہ وزارتوں کے ذریعے پیسہ کمانے کی کوشش نہ کرے۔امریکی حکام نے عرب خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری ڈیوڈ ہل نے گذشتہ ماہ لبنان کا دورہ کیا۔ اپنے اس دورے کے دوران انہیں بتایا گیا کہ حزب اللہ کو حکومت میں کلیدی عہدوں پر تعینات کیا جائے گا۔ ڈیوڈ ہل نے لبنانی حکام کے سامنے حزب اللہ کو اہم وزاتیں سونپنے پراپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔جب سعد حریری نے تین وزارتیں حزب اللہ کو دینے کے بعد حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا واشنگٹن نے بیروت پر واضحکردیا کہ حزب اللہ کے وزرا پر کسی قسم کا تعاون نہیں کرے گا۔بظاہر امریکا لبنان کے حوالے سے امن اور جنگ بندی کی پالیسی پرعمل پیرا ہے اور حزب اللہ کے حوالے سے بھی نرمی برتنے کا اشارہ دیا گیا تھا مگر اب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ پر دباﺅ ڈالنے کے لیے نئی پابندیاں عاید کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ امریکا ملک کے اندر اور باہر موجود حزب اللہ کے نیٹ ورک کو پابندیوں کا نشانہ بناتا رہے گا۔ سابقہ پابندیاں بھی کافی موثر ثابت ہوئی تھیں اور تنظیم کے سربراہ حسن نصراللہ نے بھی ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہاتھا کہ امریکا کی پابندیاں زیادہ بھاری اور طاقت ور ثابت ہوئی ہیں۔امریکی عہدیداروں کاکہناہے کہ واشنگٹن تمام حالات میں لبنانی فوج اور لبنان کے بینکنگ سسٹم کا ساتھ دے گی۔واشنگٹن لبنان فوج کی معاونت کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے اسلحہ اور اس کی دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی۔