امریکا میں ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے لیے قانون سازی

ایران کے ساتھ مسلسل بڑھتی کشیدگی کے جلومیں امریکی کانگریس میں ایک نئے قانون کی منظوری پر کام جاری ہے جس کے بعد ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی راہ ہموار ہوجائے گی۔امریکی انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے سال 2019 میں عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی قوتوں کے حوالے سے تیار کردہ رپورٹ میں ایران میں القاعدہ کی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2009 سے ایران القاعدہ کے جنگجوﺅںکے درمیان باہمی رابطہ کا موثر ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے راستے جنوبی ایشیا اور شام میں القاعدہ کے جنگجوﺅں کی آمد روفت ممکن ہوئی۔ نیز ایران نے اپنے ملک میں موجود القاعدہ کے خطرناک جنگجوﺅں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔القاعدہ کے جنگجوﺅں اور لیڈروں کو پناہ دینے اور اس کے لیے سہولت کاری کےعلاوہ خود مشرق وسطی کے ممالک کے لیے خطرہ بننے والے ایران کے خلاف امریکی انتظامیہ نے قانون سازی پرکام شروع کیا ہے تاکہ ایران کے خلاف فوجی طاقت کی راہ ہموار کی جاسکے۔نائن الیون کے حملے کے بعد امریکی کانگریس نےایک بل منظور کیا تھا جس میں صدر کو طالبان اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کا اختیار دیا تھا تاہم موجودہ حالات میں سیاسی اور تزویراتی اسباب کی بنا پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دینا کافی پیچیدہ ہے۔