برطانیہ نے داعشی خاتون کی شہریت منسوخ کردی

برطانوی حکومت نے داعشی خاتون جنگجو شمیمہ بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے جس میں کسی داعشی جنگجو خاتون کی شہریت منسوخ کی گئی۔ میڈیا رپرٹس کے مطابق شمیمہ بیگم کی شہریت کی منسوخی کے فیصلے پر ملک کے عوامی اور ابلاغی حلقوں میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔پاکستانی نژاد مسلمان برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے 19 سالہ شمیمہ بیگم کی شہریت کی منسوخی کا اعلان کیا۔خیال رہے کہ شمیمہ اپنی دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سنہ 2015 میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شمولیت کے لیے ملک چھوڑ کر چلی گئیں تھیں۔مشرقی لندن میں اپنے بیان میں شمیمہ کے خاندان نے کہا کہ ان کی 19 سالہ بیٹی کا بچہ جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا مکمل طور پر معصوم ہے اور یہ اس کا حق ہے کہ وہ برطانیہ کے پرامن اور محفوظ ماحول میں پرورش پائے۔وزیر داخلہ ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ شمیمہ کو ملک واپسی پر الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خیال رہے کہ اپنے انٹرویو میں شدت پسند تنظیم 'داعش' میں شمولیت کے لیے سنہ 2015 میں مشرقی لندن سے جانے والی تین طالبات میں سے ایک شمیمہ نے کہا ہے کہ انھیں اپنے اقدام پر افسوس نہیں لیکن وہ واپس برطانیہ آنا چاہتی ہیں۔شمیمہ بیگم نے جو کہ شام میں واقع ایک پناہ گزین کیمپ میں موجود ہیں یہ پیغام دیا تھا کہ وہ وہ نو ماہ کی حاملہ ہیں اور بچہ پیدا کرنے کے لیے واپس گھر آنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اِن کے دو اور بچے بھی ہوئے تھے لیکن دونوں وفات پا گئے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ جانے والی دیگر دو لڑکیوں میں سے ایک بمباری میں ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ تیسری لڑکی کا کچھ پتا نہیں۔شمیمہ کا انٹرویو سامنے آنے کے بعد خاندان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شمیمہ کا انٹرویو دیکھنے سے پہلے تک ان کی تمام امیدیں ٹوٹ چکی تھیں۔خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ شمیمہ کو اس پر کوئی پچھتاوا نہیں کہ وہ دولت اسلامیہ کا حصہ بنی۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی لڑکی کے الفاظ ہیں جس نے عمر کے 15 برس تک دولت اسلامیہ کے حامیوں کے اردگرد گزارے۔شمیمہ کے اہلِ خانہ نے اس کی ذہنی صحت پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ چار سال تک وہاں رہی۔ اس دوران اس نے دولت اسلامیہ کے جنگجو سے شادی بھی کی اور اس کے دو بچے بھی مر گئے۔خاندان کا کہنا ہے کہ یہ بہت ناقابل برداشت خبر ہے کہ اس کے بچے جان سے گئے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہمارے خاندان کے لیے اس کی بہبود بہت اہم ہے اور ہم اس بچے کی حفاظت کے لیے جو اس تمام واقعے میں بے قصور ہے اپنے بس میں جو بھی ہو گا کریں گے۔