اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری پر پی پی رہنماؤں کا سخت ردعمل
نیب کے ہاتھوں اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری پر پی پی رہنماؤں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک و قوم کو افراتفری کے سوائے کچھ نہیں دیا۔وزیراعظم عمران خان،اسپیکر پنجاب اسمبلی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ اور وفاقی وزیر دفاع کیخلاف بھی جاری ہیں، انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔آخر تحریک انصاف کے ان رہنمائوں اور حکومتی اتحادیوں کوپوچھنے والا کوئی کیوں نہیں ہے۔؟ پی پی رہنما اور مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی موجودہ اسپیکر اسمبلی کو حراست میں لیا گیا۔نیب یہ کرکے سندھ کو کیا پیغام دینا چاہ رہا ہے۔ بحیثیت پاکستانی اور سیاسی جماعت کے ہم یہ سوال پوچھنے پر قاصر ہیں کہ کیا ملک میں 2 قوانیں چل رہے ہیں؟ کیا پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے مختلف اور پی ٹی آئی اور اس کی اتحادیوں کے لیے الگ قوانین ہیں؟انہوں نے سوال کیا کہ کیا قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف نیب انکوائری نہیں چل رہی، کیا نیب کے اصول صرف ہماری جماعت کے خلاف ہوں گے؟۔ وزیر اعظم عمران خان، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف بھی نیب انکوائری چل رہی لیکن انہیں استثنیٰ مل جاتا ہے،اور حراست میں نہیں لیا جاتا۔نیب کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آغا سراج درانی کے خلاف انکوائری چل رہی ہے لیکن ان پر کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا، نیب تحقیقات کرے لیکن کسی شہری خاص طور پر وہ شخص جو اسمبلی کا اسپیکر ہو اس کے بنیادی حقوق سلب کیوں کئے جارہے ہیں۔ ہم نے علیم خان کی گرفتاری کی بھی مذمت کی تھی کیونکہ قانون کا اصول ہے جب تک فرد جرم عائد نہیں ہوتی ملوث شخص بے قصور ہی تصور کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہمیشہ انکوائری اور تحقیقات کے لیے تیار ہیں، ہم کبھی اس سے بھاگے نہیں، ہم نے ماضی میں بھی کیسز کا سامنا کیا تھا، ابھی بھی کررہے ہیں اور آگے بھی کریں گے۔ یہ تاثر قائم نہیں کیا جائے کہ پیپلز پارٹی احتساب کے خلاف ہے، ہم چاہتے ہیں کہ احتساب ہو لیکن عدالتوں کو کام کرنا چاہیے، ہمارے کسی شخص نے کچھ کیا ہے تو انکوائری کی جائے لیکن کسی ریفرنس کے بغیر حراست میں کیوں لیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اسپیکر جو دوسروں کے حقوق کا ضامن ہے آج وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑے گا کہ میرے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔پیپلز پارٹی نیب کے اس عمل کی مذمت کرتی ہے، سارے قوانین کا اطلاق پیپلزپارٹی کے خلاف کیوں ہوتا ہے؟ کیوں سندھ کے عوام کو سزا دی جارہی ہے؟ خدارا ہمیں دیوار سے نہیں لگایا جائے۔نیب تحقیقات پر ان کا کہنا تھا کہ صرف پیپلزپارٹی کے خلاف نہیں بلکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنماؤں کے خلاف بھی انکوائریز چل رہی ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب سیاسی جماعت کو آئینی طریقے سے اکثریت نہیں ملتی تو اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، 25 جولائی سے پہلے بھی پیپلز پارٹی کے خلاف بڑے بڑے اعلان کیے تھے لیکن اس کے باوجود سندھ کے عوام نے ہمارا ساتھ دیا۔پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آغا سراج ایک شخص نہیں اسپیکر سندھ اسمبلی ہیں انہیں ایسے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے، سندھ کے اسپیکر کو اسلام آباد سے ہتھکڑیاں لگاکر کراچی لے جانا کیا پیغام دے گا ، اگر گرفتاری قانونی ہے تو آغا سراج کو اسلام آباد سے کیوں اٹھایا گیا۔ وفاقی دارالحکومت تمام صوبوں کا ہے، کسی ایک جماعت کا نہیں ، حکومت نے یہ تاثر دیا ہے کہ چھوٹے صوبہ سندھ کے نمائندے اسلام آباد میں محفوظ نہیں ہیں ۔رکن قومی اسمبلی پی پی نفیسہ شاہ نے اسپیکرسندھ اسمبلی کی گرفتاری پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آغا سراج درانی کیخلاف کیس ابھی محض انکوائری کے مرحلے میں ہے،اور انکوائری کے مرحلے میں گرفتاری کیسے ہوسکتی ہے، سب جانتے ہیں کہ اسپیکر اسمبلی کے کسٹوڈین اورمنتخب اراکین کے حقوق کے نگران ہیں۔ بختاوربھٹو نے اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری پاکستان اور جمہوریت کی بے عزتی ہے، وزیراعلیٰ سندھ پر مقدمات اور ان کا نام ای سی ایل پر ڈالنا بھی غلط ہے۔