وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے کاروائی کی بجائے معاوضہ دینے کے بیان کی مزمت کرتا ہوں سینیٹر سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے گزشتہ روز ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کر کے چار افراد کو قتل کرنے کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ساہیوال واقعہ رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں ہوا ہے او ر وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے اس واقعہ کودیکھا ہے اور بے شمار گواہ موجود ہیں۔ جس ادارے نے یہ کام کیاہے اس سے پہلے بھی بہت سارے واقعات میں یہ ادارہ اسی طرح ملوث ہے۔
ہم چیف جسٹس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ از خود اس معاملہ کو بنیاد بنا کر تحقیقات بھی کریں اور اس کے علاوہ جتنے لوگ اس ادارے کے ہاتھوں اندھے کنویں میں پھینکے گئے ہیں، شہید کیے گئے ہیں ، مارے گئے ہیں ان سب واقعات کا آڈٹ ہونا چایئے۔ہم نہیں چاہتے کہ مظلوموں کا یہ خون خس کم جہان پاک کی طرح ضائع ہو جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر ہمارے شہریوں کی جان اور مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ان بیانات کی بھی مذمت کرتا ہوں کہ اگر آدمی بے گناہ ثابت ہوا تو ہم معاوضہ دیں گے۔ جب تک کوئی جرم ثابت نہ ہو اس وقت تک ماورائے عدالت کسی کو مارنا، کسی کو قتل کرنا ، کسی کو ایک تھپڑ لگانا یہ جرم ہے اور بذات خود ظلم ہے ۔
لوگوں کو عمران خان کا بیان یاد ہے کہ میں اپنے لوگوں کے ساتھ سچ بولوں گا اگر ان کو اپنا بیان یاد ہے تو میں وزیر اعظم سے اپیل کروں گا کہ سچ آج قوم کے سامنے بولیں اور قوم کو بتائیں کہ ناحق خون کیوں بہایا گیا دن کی روشنی میں یہ ظلم کیوں کیا گیا ۔ میرا مطالبہ ہے کہ ماورائے عدالت جتنے بھی لوگ قتل کیے گئے ہیں ان سب کا آڈٹ ہونا چاہیے اور ہر قتل کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار سینیٹر سراج الحق نے گزشتہ روز سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے ساہیوال میں نشانہ بنائے گئے چار افراد کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ساہیوال واقعہ رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں ہوا ہے او ر وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے اس واقعہ کودیکھا ہے اور بے شمار گواہ موجود ہیں۔ حکومت نے اب تک جو مئوقف اختیار کیا ہے کہ ان کا تعلق دہشت گرد تنظیم کے ساتھ ہے ۔ عقل مانتی نہیں ہے کیوں کہ کوئی بھی دہشت گرد اپنے ساتھ بیوی، بچوں کو اور خاندان کو ایک چھوٹی سی کار میں لے کر نہیں جاتا۔ یہ بہت زیادہ افسوسناک واقعہ ہے اور جس ادارے نے یہ کام کیاہے اس سے پہلے بھی بہت سارے واقعات میں یہ ادارہ اسی طرح ملوث ہے۔
سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ قوم کو یہی خبر دی جاتی ہے کہ یہ دہشت گرد تھے مگر آج پتہ چلا کہ یہ ادارہ کیا کام کر رہا ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ ماورائے عدالت جتنے بھی لوگ قتل کیے گئے ہیں ان سب کا آڈٹ ہونا چاہیے اور ہر قتل کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ میں چیف جسٹس سے بھی کہوں گا جو نئے ، نئے آئے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ لوگ حکومت کے بیانات پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ گزشتہ17،18 گھنٹوں میں حکومت نے چھ ، سات بار اپنے بیانات تبدیل کیے ہیں اس لیے ان کی قائم کردہ کسی کمیٹی پر بھی قوم یقین نہیں رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیل نے اپنی بیوی اور بچوں کے ہمرہ لے کر اپنے رشتہ دار رضوان کی شادی میں جانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن شادی میں شریک ہونے کی بجائے وہ خود ایک تماشا بنائے گئے۔
ہم حکومت کے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہیں ، یہ پولیس گردی ہے، یہ کھلم کھلا دشمنی اور بدمعاشی ہے ۔ یہ کوئی سیاسی مسئلہ بھی نہیں یہ انسانی المیہ ہے اور کل ہر آدمی سوچ سکتا ہے کہ جس گاڑی میں، میں بیٹھا ہوں اس کو یہ ادارہ ہٹ کر سکتا ہے، ہر شہری اس نظام میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے ، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت جوابدہ بھی ہے اور حکومت کو جواب دینا پڑے گا ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک جمہوری اور مہذب معاشرے میں کسی بھی گناہ گا ر کو اسی طرح قتل کیا جاتا ہے کہ جہاں بھی ملے اسے قتل کر دو۔ اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ یہ آدمی گناہ گا ر تھا تو بھی پولیس کا یہ کام نہیں ہے کہ سڑک کنارے کھڑاکر کے اسی وقت بچوں کے سامنے اس کو ذبح کرے اور قتل کرے، زندہ درگور کرے۔ پولیس گرفتاری کرتی ہے، عدالت میں پیش کرتی ہے، بیانات دیتی ہے اور ثابت کرتی ہے اس کے بعد عدالتوں کا کام ہے کہ کسی کو پھانسی کی سزا دے یا کسی کو بری کر دے۔
اگر آپ کو اپنی عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے تو پھر عدالتوں کو تالہ لگا دیں ، پھر تھانوں کو بند کر دیں۔ اگر ہم جمہوری ملک اور مہذب معاشرہ ہیں ، یہاں کوئی قانون، کوئی ضابطہ ، کوئی نظام ہے تو پھر خدا کے لیے قوم کے سامنے اپنے اس جرم کا اعتراف کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس یہ ہے کہ جو ایف آئی آر حکومت نے کاٹی ہے وہ بھی نامعلوم لوگوں کے خلاف ہے جو ہمارے شہریوں کے ساتھ ایک اور مذاق ہے۔ 100 لوگ گواہی دے رہے ہیں، سارے لوگوں نے ان کی ویڈیو بنائی ہے ، سینکڑوں لوگوں نے اس تماشے کو دیکھا ہے لیکن حکومت نے پھر بھی نامعلوم لوگوں کے خلا ف ایف آئی آر کاٹی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ نہ وزیر اعلیٰ سنجیدہ ہے اور نہ وزیر اعظم عمران خان اس چیز کو سنجیدہ لے رہے ہیں۔ میں کہنا چاہتا ہوں عمران صاحب یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے، بزدار صاحب یہ بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے۔ 13 سالہ بچی اریبہ کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا ہے اس کو اپنی بیٹی سمجھ کر فیصلہ دیا جائے۔ ہم لاہور میں اس غمزدہ خاندان کے غم میں شریک ہیں یہ ہمارا خون ہے، یہ ہمارے بچے شہید کیے گئے ، خلیل ہم سب کا بھائی ہے۔
جب تک کوئی جرم ثابت نہ ہو اس وقت تک ماورائے عدالت کسی کو مارنا کسی کو قتل کرنا ، کسی کو ایک تھپڑ لگانا یہ جرم ہے اور بذات خود ظلم ہے ۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ایک ریاست کفر کے ساتھ چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی اور یہ بہت بڑا ظلم ہے جو حکومت نے کیا ہے رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں کیا ہے، ہم حکومت سے حساب اور کتاب کرنا چاہتے ہیں، ان کو جواب دینا پڑے گا، ان کو بتانا پڑے گا اور ان کو اعتراف کرنا پڑے گا۔
ان کا کہان تھا کہ لوگوں کو عمران خان کا بیان یاد ہے کہ میں اپنے لوگوں کے ساتھ سچ بولوں گا اگر ان کو اپنا بیان یاد ہے تو میں وزیر اعظم سے اپیل کروں گا کہ سچ آج قوم کے سامنے بولیں اور قوم کو بتائیں کہ ناحق خون کیوں بہایا گیا دن کی روشنی میں یہ ظلم کیوں کیا گیا ۔ رات کے اندھیرے میں بھی جرم ، جرم ہے اور ظلم، ظلم ہے لیکن یہ تو سب لوگوں نے دیکھا ہے۔ پوری قوم متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔