امریکی لڑاکا طیاروں کے حصول میں ترک حکومت کی دلچسپی کا راز

ترکی نے ایک بار پھر امریکہ سے ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خریداری کا سودا طے کرنے کا کہا جو کہ تقریباً 5 سال قبل انقرہ کی طرف سے روسی ساختہ ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ امریکی لڑاکا طیاروں کے حصول میں ترک حکومت کی دلچسپی کا راز کیا ہے؟ اس حوالے سے گزشتہ دنوں ایک تنازعہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اگرچہ ترکیہ کے وزیر خارجہ میولیود چاوش اولو نے بدھ کو امریکی ہم منصف بلنکن کو اطلاع دی ہے کہ ان کے ملک کا سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت پر اپنے اعتراض کو ترک کرنا ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی فروخت کےلیے پیشگی شرط نہیں ہونا چاہیے۔تاہم عسکری ماہرین بتاتے ہیں کہ ترکیہ کی طرف سے مہینوں پہلے نیٹو میں دونوں ملکوں کے الحاق سے انکار نے ان لڑاکا طیاروں کے بارے میں ترک اور امریکی فریقوں کے درمیان بات چیت کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی اور سلامتی کے تجزیہ کار اور سیکیورٹی امور میں مہارت رکھنے والی ویب سائٹ ’’وارز آن راکس‘‘ کے چیف کنٹینٹ آفیسر ایرون سٹین نے ان وجوہات کا انکشاف کیا جن کے تحت ترکی کو 20 بلین ڈالر کے ایک منصوبہ بند معاہدے میں ایف سولہ لڑاکا طیارے کیوں حاصل کر لینا چاہئیں۔ سٹین نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتایا کہ ترک فریق اس قسم کے لڑاکا طیارے حاصل کرنا چاہے گا کیونکہ جو ترک فوج کے پاس دستیاب ہیں وہ پرانے ہو چکے ہیں اور اسے کئی دہائیوں تک ایف سولہ استعمال کرنے کے بعد آج نئے اور متبادل طیاروں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترک فوج کے لیے اس نوعیت کے نئے طیاروں کی خریداری کو جاری رکھنے کا سب سے معقول آپشن ہے جب کہ اس نے پچھلی صدی کے اسی کی دہائی کے اوائل میں انھیں پہلی بار حاصل کیا اور بعد میں ان کے کچھ حصوں میں ترمیم بھی کی ہے لیکن انہیں حاصل کرنے کا فیصلہ فی الحال امریکی محکمہ خارجہ پر منحصر نہیں ہے۔ یہ معاملہ کانگریس کے ہاتھ میں ہے۔