مملکت کی توانائی کی تنصیبات پر حالیہ حملوں سے تیل کی رسد کی سکیورٹی کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ سعودی وزیر
سعودی عرب کے وزیر برائے توانائی ، صنعت اور قدرتی وسائل خالد الفالح نے کہا ہے کہ مملکت کی توانائی کی تنصیبات پر حالیہ حملوں سے تیل کی رسد کی سکیورٹی کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں لیکن اس کی تیل کی پیداوار پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ وہ جدہ میں اتوار کوتیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک اور تیل پیدا کرنے والے غیر اوپیک ممالک کے وزارتی اجلاس سے قبل گفتگو کررہے تھے۔انھوں نے سعودی عرب کے شراکت دار ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ان حملوں کی مذمت کریں۔ گذشتہ اتوار کو متحدہ عرب امارات کے پانیوں کے نزدیک چار تجارتی بحری جہاز وں کو ’تخریب کاری‘ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ان میں دو تیل بردار جہاز سعودی عرب کے تھے، ایک تجارتی بحری جہاز امارات اور ایک ناروے کا تھا۔ تخریب کاری کے حملے کا نشانہ بننے والا سعودی عرب کا ایک جہاز راس تنورہ کی بندرگاہ کی جانب جارہا تھا جہاں اس پر سعودی خام تیل لادا جانا تھا اور یہ تیل امریکا میں سعودی آرامکو کے صارفین کو بھیجا جانا تھا۔ اس حملے کے دوروز بعد گذشتہ منگل کو یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی مشرق سے مغرب کی جانب جانے والی تیل کی مرکزی پائپ لائن اور دو پمپنگ اسٹیشنوں پر ڈرون حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ حوثی باغیوں کے زیر انتظام المیسرہ ٹی وی نے فوجی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب کی اہم تنصیبات پر سات ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔واضح رہے کہ ایران امریکا کے ساتھ فوجی تنازع کی صورت میں تیل کی عالمی رسد کو بند کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔
سعودی وزیر توانائی خالد الفالح نے تیل کے دو پمپنگ اسٹیشنوں پر حملوں کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ڈرون حملے دنیا کو تیل کی رسد روکنے کے لیے کیے گئے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ تمام دہشت گرد تنظیموں کا استیصال ضروری ہے۔