آخری سانس تک انصاف ، قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتا رہوں گا۔عمران خان

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آخری سانس تک انصاف اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتا رہوں گا، قانون کی بالادستی اور متفرق قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی طرز معاشرت میں فکری انقلاب لاسکتے ہیں،ریاست مدینہ میں انصاف اور میرٹ کی حکمرانی تھی، جو جرنیل بھی اچھی کارکردگی دکھاتا تھا وہ اوپر آجاتا تھا۔ اسلام آباد میں قومی رحمت اللعالمین ۖ کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 622عیسوی میں حضورۖ مدینہ میں تشریف لائے، جب وہ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت 600مسلمان تھے، جن میں مرد اور عورتیں سب شامل تھے اور10سالوں میں سارا عرب کا نقشہ بدل جاتا ہے ، جتنی بھی 10سالوں میں جنگیں ہوتی ہیں ان جو ٹوٹل لوگ مرتے ہیں ان کی تعداد1400ہے۔ مسلمان150مربع میل پر چھا جاتے ہیں اور ان کی تعداد600سے سوالاکھ پر چلی جاتی ہے، میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جو ہوا تھا وہ تلوار کے زور سے نہیں ہوا تھا، یہ دنیا کا بڑا فکری انقلاب آیا تھا، سوچیں اور ذہن بدلے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکم کرتا ہے نبیۖ کی زندگی سے سیکھو اور ان کی سنت پر چلو، یہ کیوں حکم کرتا ہے، یہ ہماری بہتری کے لئے کرتا ہے۔ یہ جو انقلاب آیا تھا ، اگر ہم ان اصولوں پر چل پڑیں تو وہ مسلمانوں کو اٹھا دیتا ہے کیونکہ تاریخ میں ایک ماڈل بنایا اور پھر اس کو کامیاب کیا، جو مدینہ کی ریاست تھی وہ ایک ماڈل بنا اور وہ پھر ساری دنیا پر پھیل گیا، ساری دنیا کی عظیم تہذیب بنا،وہ اصول اور بنیاد کیا تھی، جس کے اوپر مدینہ کی ریاست کھڑی ہوئی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ میں ملک کے نوجوانوں کو خاص طور پر اس چیز کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو رحمت العالمین اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا اس کی وضاحت بھی میں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو سب کچھ دیا ہے اس میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ تین سال جو اقتدار میں میں رہا ہوں میں ہمیشہ حیران ہوتا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو کتنی نعمتیں بخشی ہیں لیکن ہم نے اپنا راستہ ٹھیک کرنا ہے۔ میں اب سے نہیں جب25سال پہلے میں نے اپنی پارٹی بنائی تھی تو ہم نے اپنا وژن دیا تھاکہ مثالی اسلامی، فلاحی ریاست، مطلب کہ مدینہ کی ریاست۔ میں تب ہی اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ اگر اس قوم نے ایک عظیم قوم بننا ہے تو اس کو ان اصولوں پر چلنا پڑے گا۔ وہ کیا اصول تھے کہ وہی لوگ، وہی عرب تھے کہ ایک طرف آدھی دنیا پرشین ایمپائر اور دوسری طرف آدھی دنیا رومن ایمپائر ، بیچ میں تھوڑے سے عرب تھے، قبیلے آپس میں لڑتے تھے،وہ کیا ہوا کہ622عیسوی سے لے کر 632عیسوی تک ان لوگوں نے دنیا کی امامت کروانا شروع کردی اور اگلے 20سالوں میں وہ مراکش سے لے کر ہندوستان تک اور وسطیٰ ایشیاء تک پہنچ گئے وہ کیا چیز تھی، اگر ہم سمجھ جائیں تو یہ وہ چیز ہے جس سے ہمارا ملک ایک عظیم ملک بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو سب سے پہلی چیز نبیۖ نے دی، اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنا، ایک معاشرے کا اخلاقی معیار اٹھایا، انہوں نے معاشرے کی اخلاقیات اٹھائی اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز ہو، سب سے پہلی چیزانہوں نے یہ کی کہ اپنی شخصیت سے معاشرے کی اخلاقیات اوپر اٹھا دی۔ اگلی چیز جو انہوں نے کی وہ عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا، رول آف لائ، ان کی دو احادیث ہیں، وہ اتنی اہم احادیث ہیں کہ اگر ایک معاشرہ انہیں پر عمل کر لے تو اسی سے معاشرہ اٹھ سکتا ہے۔ ایک یہ کہ میری بیٹی بھی اگر جرم کرے گی تو اس کو سزا ملے گی، قانون سے اوپر کوئی نہیں، اور دوسری چیز کہ تمہارے سے پہلے بڑی قومیں تباہ ہوئیں کہ جدھر طاقتور کے لئے ایک قانون اور کمزور کے لئے دوسرا قانون تھا۔ رول آف لاصرف وہ قوم دے سکتی ہے جس کی اخلاقیات اوپر ہوں، جس کے اعلیٰ اخلاقی معیار ہوں، ہر کوئی قانون کی بالادستی قائم نہیں کرسکتا۔ آج دنیا میں دیکھ لیں، دنیا بٹی ہوئی ہے، غریب ملک کہاں ہیں، بنانا ریپبلکس کس کو کہتے ہیں ، جدھر قانون نہیں ہے، جدھر انصاف نہیں ہے اور انصاف کا مطلب ہی ہوتا ہے کہ کمزور کو انصاف چاہئے ہوتا ہے، طاقتور ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے آپ کو اوپر رکھے۔جب ایک معاشرہ کمزور کو انصاف دیتا ہے تو پھر وہ معاشرے کا حصہ اور پھر وہ اس کو اون کرتا ہے، وہ ریاست کا حصہ بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جو بھی ملک دنیا میں آگے بڑھے ہیں ایک ان کی اخلاقیات ہوتی ہے اور ایک ان کے پاس انصاف ہوتا ہے۔ ہماری ملک میں جو جدوجہد ہے وہ قانون کی بالادستی کے لئے ہے، جو رومنز تھے وہ دوسروں کو وحشی کہتے تھے، وہ اس لئے کہتے تھے کہ ان کے ہاں کوئی قوانین موجود تھے، باقیوں کا کوئی قانون نہیں تھا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ بنانا ریپبلک کا مطلب ہوتاہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، وہاں طاقت کا زور ہوتا ہے اور جنگل کا قانون ہوتا ہے۔ مدینہ کی ریاست کی بنیاد کیا تھی، اخلاقیات اور پھر قانون کی بالادستی، رول آف لائ۔ تیسری چیز فلاحی ریاست، دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک انسانیت کا نظام آیا،انہوں نے ایک ریاست بنائی جدھر ریاست نے کمزور طبقے کی ذمہ داری لی، یہ دنیا میں پہلی فلاحی ریاست بنی تھی، اور اس ریاست نے انسانوں کو نچلے طبقہ کا اوپر اٹھا دیا۔ جب ریاست لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہے تو ہو لوگ بھی ریاست کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ یہ جو انصاف اور انسانیت ہے اس کی وجہ سے ایک قوم مضبوط ہوجاتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ اگر برصغیر کی تاریخ پڑھیں توجب بھی فوجیں اوپر سے آتی تھیں تو پانی پت کی جنگ ہوتی تھی اور جو جیت گیا ہندوستان اس کا، کیونکہ یہاںسرداری نظام تھا،یہاں قانون کی نہیں بلکہ طاقت کی حکمرانی تھی، فیوڈل سسٹم کا مطلب کہ جو اوپر بیٹھا ہوتا ہے وہ قانون سے اوپر ہوتا ہے، لیکن جو افغانستان اور ہمارا قبائلی علاقہ ہے اس کے اندر ایک جرگہ کا نظام تھا، لوگوں کو انصاف ملتا تھا، یہ سارا علاقہ انگریز ہوئے، روسی ہوئے اور امریکی ہوئے، جب برطانیہ نے سارا ہندوستان فتح کیا ہوا تھا تو یہ قبائلی علاقہ مسلسل ان کے ساتھ لڑتا رہا، وہ کیوں لڑے، کیونکہ انصاف نے ان کو آزاد کردیا تھا،اور آزاد لوگ ہی اپنی آزادی کے لئے لڑتھے ہیں، اگر میرے پاس آزادی نہیں ہے اور فیوڈل سسٹم ہے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی باہر سے آکر اوپر حکومت کرلے، اس لئے ہندوستان کو فتح کرنا آسان تھا اوراس لئے افغانستان فتح کرنا مشکل ہے، وہ فتح کر لیتے ہیں اس کے بعد قوم اپنی آزادی کے لئے کھڑی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں انہوں نے انصاف دیا اور پھر بنیادی حقوق دیئے اور ریاست نے ان کی بنیادی ضروریات پوری کیں۔ تیسری چیز اس میں میرٹ آگئی، یہ جو پچھلی تاریخ ہے جو ایک دم دنیا پر چھا گئے، اس میں بہت بڑی وجہ میرٹ تھی، جو بھی اچھا پرفارم کرتا تھا وہ جنرل اوپر آجاتا تھا، کوئی کسی کا حق نہیں تھا کہ ہمیں صرف بڑا عہدہ ملنا ہے۔ حضرت بلال ایک غلام تھے وہ وزیر خزانہ بن چکے تھے،انہوں نے دو مہمات کی سربراہی کی تھی ، سلمان فارسی تھے وہ ایک دم مسلمان ہوئے ان میں صلاحیت تھی وہ اوپر چلا گیا۔تو جو بھی امت میں داخل ہوتا تھا اگر اس کے اندر صلاحیت تھی وہ اوپر چلا جاتا تھا، میرٹ کا سسٹم تھا۔ پھر انہوں نے لیڈرز پیدا کئے، ایک کے بعد دوسرا لیڈر نکلتا گیا، جو ان کے اردگرد تھا وہ لیڈر بن گیا، سارے صحابہ لیڈر بن گئے، کیونکہ انہوں نے ان کے اندر جو کردار سازی کی ، وہ کیا صلاحیتیں تھیں کہ وہ لیڈر بن گئے، لیڈر کے اندر کیا خوبیاں ہونی چاہئیں، سب سے پہلے صادق اور امین، دنیا کبھی بھی کسی کی عزت نہیں کرتی جو ایماندار نہ ہو ، سچا اور امانتدار نہ ہو، انصاف نہ کرسکتا ہو۔ کسی شعبہ کے اندر، کرکٹ کپتان کی بھی عزت نہیں ہوتی، کوئی اگر ادارہ چلا رہا ہے، عزت تب ہوتی ہے جب یہ صادق اور امین ہو۔ کبھی بزدل انسان لیڈر نہیں بن سکتا، ان سب کے خوف ختم کردیئے، جو، جو ان کے قریب تھا ، ایک سے ایک بڑا دلیر لیڈر بن گیا۔ خوف کیسے ختم کئے، انسان تین چیزوں سے خوف کھاتا ہے، مرنے سے، ذلت سے اور رزق جانے کے ڈر سے کہ میری روزی نہ چلی جائے۔ قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزوں کے حوالہ سے کہا کہ یہ میرے ہاتھ میں ہیں، تو جب اللہ کے ہاتھ میں زندگی ہے، جب عزت بھی اس کے ہاتھ میں ہے، جب رزق بھی اس کے ہاتھ میں ہے ، لوگوں کے خوف چلے گئے تووہ ایک ایسے لوگ بن گئے کہ جو لیڈرز بن گئے۔ ہماری اتھارٹی ریسرچ کر کے یہ چیز سامنے لے کر آئے گی کہ کتنے لیڈرز اتنے تھوڑے وقت میںبنے، ایک لیڈر نہیں تھا ، ایک ہیرونہیں تھا، ہیروز ہی نکلتے گئے۔ لوگ آزاد ہو گئے،چھوٹے لوگ بڑے لوگ بن گئے، دنیا میں وہ پھیل گئے۔ پہلے ان کے ساتھ جو صحابہ تھے وہ سارے لیڈرز بنے ، ان کو جو نیچے دیکھے وہ لیڈرز بن گئے، سارے ملکوں کے اندر جب دنیا میں مسلمان پھیلے تواس میں سب سے بڑی کوالٹی لیڈرشپ تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں کیا بتاں کس طرح کے جھوٹ بولے گئے، یہ کیس برطانوی عدالت میں ہوتا تو ان کو اسی وقت جیل میں ڈال دیا جاتا، مغرب اورپاکستان کے عدالتی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ جب تک قانون آزادنہیں ہوگاملک اوپرنہیں جا سکتا، برطانوی جمہوریت میں ووٹ بکنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، یہاں سب کو پتہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں پیسہ چلتا ہے، برطانیہ میں چھانگا مانگا جیسی یا مری میں بند کر کے ووٹ لینے کی سیاست نہیں ہوتی، اخلاقیات کا معیار نہیں تو جمہوریت نہیں چل سکتی۔ا انہوں نے کہا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود کو زندگی کے مزے لے لیے اور اب ہمیں ریاست مدینہ کا درست دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رحمت اللعالمین ۖ اتھارٹی کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان نسل کو ریاست مدینہ کے اصول بتائے جائیں، انہیں نبی کریم ۖ کی اسوہ حسنہ سے متعلق آگاہی دیں، کم از کم ہم نوجوانوں صحیح اور غلط راستوں کی نشاندہی تو کرواسکتے ہیں،عمران خان نے کہا کہ رحمت اللعالمین ۖ کے نام پر اسکالرشپ دی جائیں گی اور بتدریج اس کا دائرہ کار کو وسعت دیں گے۔عمران خان نے کہا کہ جب تک زندہ رہوں گا انصاف کی بالادستی کے لیے لڑتا رہوں گا، قانون کی بالادستی اور متفرق قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی طرز معاشرت میں فکری انقلاب لاسکتے ہیں۔، میری زندگی محض ایک دائرے میں نہیں ہے بلکہ ہمارا منشور ہی یہ ہے اور اتھارٹی کے ذریعے ہم راستہ دکھائیں گے کیونکہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ احساس اور کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ زندگی کے میدان میں خود کچھ کرسکیں، قرضے بلاسود ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ برس مارچ تک پنجاب میں تمام لوگوں کو ہیلتھ کارڈز مل جائیں گے، ایک متوسط گھر کے پاس 10 لاکھ روپے کا علاج کرانے کی سہولت ہوگی، گندم پر سبسڈی دیں گے۔علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ معاشرے میں ریپ کیسز کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے، جو یقینا ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔اس موقع پر 5 منٹ دورانیے کی ایک فیچر فلم بھی نشر کی گئی جس کا مقصد مغربی ممالک کو آگاہ کرنا تھا کہ ایک مسلمان حضرت محمد ۖ سے عشق کیوں کرتا ہے۔