بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مسلمانوں کی املاک مسمار
بھارتی دارالحکومت دہلی کی میونسپل کارپوریشن نے گزشتہ صبح نوٹس کے بغیر جہانگیر پوری کی جامع مسجد کے دروازوں سمیت بہت سی دکانوں کو مسمار کر دیا حالآنکہ سپریم کورٹ نے اس کارروائی کو روکنے کے احکامات جاری کیے تھے۔چند روز پیشتر اس علاقے میں مسلم مخالف فسادات میں متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما نے ایم سی ڈی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فسادات میں ملوث افراد کی املاک کو تباہ کر دے۔ دوسرے روز ہی حکام بلڈوزر کے ساتھ جہانگیر پوری پہنچ گئے۔دہلی میونسپل کارپوریشن نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی تجاوزات کے خلاف کی گئی تھی نہ کہ کسی کے حکم پر تاہم مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سلسلے میں کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔جہانگیر پوری میں ہندوؤں کی بھی آبادی ہے تاہم توڑ پھوڑ جامع مسجد کے علاقے میں کی گئی۔ کارروائی شروع ہوتے ہی مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔عدالت نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے فوری طور پر کارروائی روکنے کا حکم دیا تاہم حکام نے نوٹس موصول نہ ہونے کا جواز گھڑ کے توڑ پھوڑ جاری رکھی۔ چند گھنٹے بعد جب عدالتی حکم پہنچا تب عمارتیں ڈھانے کا عمل روکا گیا۔سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والی تنظیم جمعیت علماء ہند کے ترجمان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے عدالتی احکامات کی بھی پرواہ نہیں کی۔اِس سے قبل ریاست مدھیہ پردیش میں رام نومی کے جلوس کے دوران تصادم کے واقعات کے بعد ضلع کھرگون کی انتظامیہ نے مسلمانوں کے کم از کم 45 مکانات اور دکانیں مسمار کر دی تھیں۔ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس نئی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت فسادیوں کے مکانات مسمار کر دیے جائیں گے۔ اس کی ابتدا یُوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ترمیمی قانونِ شہریت کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف کی تھی۔انتظامیہ فسادات کی تفتیش یا عدالتی کارروائی کے بغیر ہی مسلمانوں کو ذمےدار ٹھہرا کر ان کی املاک کو تباہ کر رہی ہے حالآنکہ سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان بھی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔دہلی میں ہوئے 2020ء کے مسلم مخالف فسادات کے بعد بھی دہلی پولیس نے زیادہ تر مسلمانوں کے خلاف ہی کارروائی کی تھی جن میں سے بہت سے اب بھی جیلوں میں قید ہیں۔جہانگیر پوری فسادات میں بھی ہندو رہنماؤں کے خلاف بنا اجازت جلوس نکالنے کا مقدمہ درج کیا گيا ہے جبکہ مسلمانوں کو فساد بھڑکانے کے مقدمات کے تحت گرفتار کیا جا رہا ہے۔