بچوں کیساتھ زیادتی: عمر قید بغیر وارنٹ ناقبل ضمانت گرفتاری‘ ویڈیو بنانے پر 7 سال سزا ہو گی
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے فوجداری قانون میں ترامیم کے بل کی منظوری دے دی، بل کے مطابق بچوں کو ورغلا کر ویڈیو و تصاویر بنانے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، بچوں کے ساتھ جان بوجھ کر تشدد اور نازیبا حرکت پر تین سال قید اور پچاس ہزار تک جرمانہ ہو گا جبکہ کمیٹی نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر عمر قید کی سزا کی بھی منظوری دے دی ہے اب بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا اور گرفتاری بھی ناقابل ضمانت ہو گی۔ چیئرمین بشیر محمود ورک کی زیرصدارت اجلاس میں وزارت قانون و انصاف کی جانب سے بچوں کو جرم کا ذمہ دار قرار دینے کی کم از کم عمر دفعہ 82 کے تحت سات سال سے بڑھا کر دس سال کرنے اور دفعہ 83 کے تحت 12 سے بڑھا کر 14 سال بالغ تصور کرنے کی تجویز پیش کی جس پر جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے تحفظات بیان کرتے ہوئے کہا اب تک دھماکوں میں ملوث جتنے بھی افراد کو پکڑا گیا ہے ان کی عمریں 8 سے 10 سال کے درمیان تھیں بل کو منظور کرنے سے پہلے ملک کے امن و امان کی صورت حال کو سامنے رکھنا ہو گا ۔ جسٹس (ر) افتخار چیمہ نے کہا 12 سے 14 سال کا بچہ بالغ ہو جاتا ہے جس کا مطلب ہے بالغ بچوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہیں قانون میں اس ترمیم سے اس کا استعمال خطرناک طریقے سے شروع نہ ہوجائے اس لئے بل کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہوں۔ معین وٹو نے کہا کہ اس بل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بل پر بیرون ملک سے بھی تجویز آئی تھی اور ہم بین الاقوامی اداروں سے علیحدہ نہیں رہ سکتے۔ ڈائریکٹر جنرل قانون و انصاف محمد حسین منگی نے کہا کہ ملک میں بچوں کے ساتھ تو زیادتی ہو رہی ہے پشاور کے سینما گھروں، ہائی ویز اور سٹریٹ چلڈرن سمیت پیرودھائی اڈے پر بچوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اس لئے بل کا منظور ہونا اہم ہے۔ قانون و انصاف کی وزارت نے بچوں کے حقوق کیلئے کمشن بنانے کی تجویز پیش کی اور کہا اقوام متحدہ کا پاکستان ممبر ہے انہوں نے کمیشن بنانے کا کہا جس پر جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا پہلے بھی وزارت میں انسانی حقوق کیلئے کام ہونا نظر نہیں آتا اور پھر سے نیا کمیشن بنا کر بجٹ میں اضافہ کرنا ہو گا۔ این سی ایس ڈبلیو خواتین کے حقوق کو دیکھ رہا ہے تو اس میں بچوں کو بھی شامل کر دیا جائے جس پر چیئرمین نے کہا کہ ہمارے قانون میں انسانی حقوق کیلئے قوانین موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ادارے نوٹس نہیں لیتے۔ آئی این پی کے مطابق قائمہ کمیٹی نے بعض ترامیم کے ساتھ ضابطہ فوجداری ترمیمی بل 2015ء اتفاق رائے سے منظور کرلیا جبکہ نیشنل کمشن آف چائلڈ رائٹس بل بغیر کی ترمیم کے منظور کرلیا گیا، قومی احتساب آرڈیننس ترمیمی بل 2015ء آئندہ اجلاس تک مؤخر کردیا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق بچوں کو جرم کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کم سے کم عمر دس سال کردی گئی ہے۔