10 ذی الحجہ ایک ایسا مبارک دن جو ہمارے وجود کو ایثار و قربانی کے جذبے سے سر شار کر دیتا ہے۔
دس ذی الحجہ ایک ایسا مبارک دن جو ہمارے وجود کو ایثار و قربانی کے جذبے سے سر شار کر دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تو اللہ کی محبت بیٹے کی محبت پر غالب آ گئی۔ بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو باندھ کر گلے پر چھری چلا دی۔ اللہ کو ابراہیم سے امتحان لینا مقصود تھا اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔عید الاضحی کے دن کے مستحبات میں بہتر ہے کہ قربانی کے گوشت سے قبل کچھ نہ کھائیں،غسل کرنا، خوشبو لگانا،مسواک کرنا، اچھا لباس پہننا، ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا،عید گاہ تک پیدل جانا،بلند آواز سے تکبیر کہنا شامل ہیں۔اونٹ کی عمر پانچ سال ،بچھڑا،گائے دو سال اور بھیڑ، بکرے اور دنبے کی عمر ایک سال ہونی چاہیے۔ ایساجانورجس کے جسم کا کوئی بھی عضو پوری طرح یا اس کا کچھ حصہ ضائع ہو چکا ہے یا کٹ چکا ہےاس کی قربانی جائز نہیں۔ کمزور جانورجو قربان گاہ تک خود چل کے بھی نہ جا سکے اور لنگڑے جانور کی قربانی بھی جائز نہیں۔ اونٹ، گائے اور بھینس وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جبکہ بھیڑ، بکری اور دنبہ میں شراکت داری نہیں ہو سکتی۔