دنیا بھرمیں آج مادری زبان کاعالمی دن ہے۔ 17نومبر 1999ء کویونیسکو نے اس دن کومنانے کااعلان کیا۔ جبکہ 2008ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اسے باضابطہ منظوری ملی
اکیس فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کی مادری زبانوں اور خاص طور پراقلیت کی مادری زبانوں کو فروغ دینا ہے۔ یونیسکوکے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 6 ہزارکے لگ بھگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں سے 199 ایسی ہیں جن کے بولنے والے10یااس سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ جبکہ 177 زبانیں ایسی ہیں، جن کے بولنے والے 10سے 50 کے درمیان ہیں۔ یونیسکو نےخطرہ ظاہرکیاہے کہ 27پاکستانی زبانوں سمیت دنیا سے 2 ہزارزبانیں ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 60 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان دنیا کا 32واں ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زبانیں رائج ہیں ۔ لیکن اردو رابطے کا بہترین ذریعہ مانی جاتی ہے ۔ پاکستان ایک کثیر السان ملک ہے، لیکن یہاں علاقائی زبانوں کی اہمیت اور مقام پرآج تک بحث جاری ہے۔ آئین پاکستان بظاہرمقامی زبانوں کےتحفظ اورفروغ کاحق تسلیم کرتاہے۔مگرسوائے سندھی کے کسی بھی علاقائی زبان کو سرکاری درجہ نہیں مل پایا۔ صوبہ خیبر پختونخوامیں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں ضرور پڑھائی جاتی ہے۔ جبکہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کی سرکاری سطح پرکبھی بھی سنجیدگی سےضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہاں! عوامی سطح پر پنجابی زبان اپنانے اور اس کے سٹیٹس کی بات بھی محض چند دانشوروں تک ہی محدود رہی۔ ماں بولی یا مادری زبانوں کوانسان کاشناختی ڈی این اے بھی کہاجاتاہے۔ مادری زبانوں کے ہرہرلفظ اورجملے میں قومی روایات، تہذیب و تمدن اورذہنی وروحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہیں مادی اور ثقافتی ورثے کی بقاءاور فروغ کا سب سے موثرذریعہ سمجھاجاتاہے۔ لہذا کسی بھی قوم کومٹانا ہوتواس کی زبان مٹا دو۔ اس قوم کی روایات، تہذیب، تاریخ اورقومیت سب مٹ جائے گی۔