ڈھاکہ کے مصروف علاقے میں آتشزدگی سے ہلاکتوں کی تعداد78 ہوگئی،50سے زائد افراد زخمی

بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے پرانے حصے میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 78افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، 50 سے زائد افراد زخمی ہیں، نو گھنٹوں کے بعد جمعرات کی صبح آگ پر قابو پا لیا گیا،متعدد دکانوں اور عمارتوں میں پڑا سامان راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ، حکام نے ہلاکتوں کی تعداد میں مزید ا ضافے کا خدشہ ظاہر کردیا ۔بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ کے تاریخی علاقے میں لگنے والی آگ میں اب تک کم از کم 78 افراد کے ہلاک ہوچکے ہیں ۔بدھ کی شام ایک رہائشی عمارت، جسے جزوی طور پر کیمیائی گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، میں آگ بھڑک اٹھی۔مقامی میڈیا کے مطابق آگ نے قریبی عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔حکام نے بتایا کہ آگ سے ہلاکتوں کی تعداد 78 ہو گئی ہیں، تاہم آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔بنگلہ دیش فائر سروس کے سربراہ علی احمد نے بتایا کہ اندیشہ ہے کہ آگ گیس کے سلنڈر سے لگی جس کے بعد اس نے مختلف کیمیکلز کا ذخیرہ رکھنے والی عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔انھوں نے بتایا کہ آگ نے چار قریبی عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا جن کو کیمیائی گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔آگ لگنے سے علاقے میں ٹریفک جام بھی رہا۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ لوگوں کے لیے بچ نکلنا ناممکن تھا۔ڈھاکہ کے صدیوں پرانے علاقے چوک بازار میں انتہائی تنگ گلیاں ہیں جہاں ہر ایک انچ کے فاصلے پر رہائشی عمارتیں موجود ہیں۔ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ڈپٹی کمشنر ابراہیم خان کے مطابق متاثرین میں اس عمارت سے باہر موجود لوگ بھی شامل ہیں۔اطلاعات کے مطابق بہت سے لوگ عمارت میں پھنس کر رہ گئے تھے جو باہر نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ڈھاکہ میں ہولناک آتشزدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سنہ 2010 میں ضلع نمتالی میں ہونے والی آتشزدگی میں 124 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ آتشزدگی کے اس واقعے میں بھی غیر قانونی کیمیائی گودام کی موجودگی کی وجہ سے صورتحال بد تر ہوئی تھی۔اس واقعے کے بعد ایک کمیٹی نے رہائشی علاقوں سے کیمیائی گوداموں کو ہٹانے کی تجویز پیش کی تھی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اس سلسلے میں کوئی اہم اقدامات نہیں کیے گئے۔ 2013 میں ڈھاکہ کے رانا پلازہ میں گارمنٹس فیکٹری کی عمارت گرنے سے تقریبا 1100 افراد ہلاک جبکہ ہزاورں زخمی ہو گئے تھے۔چوک بازار کا شمار ڈھاکہ کے اہم ترین علاقوں میں ہوتا ہے، یہ ایک تاریخی ضلع ہے جسے 300 سال قبل مغلیہ شاہی دور میں قائم کیا گیا تھا۔یہ علاقہ کیمیکل کے کاروبار اور پرفیوم فیکٹریوں کا مرکز ہے تاہم سنہ 2010 میں لگنے والی ایک مہلک آگ کے بعد حکام کی جانب سے یہاں کیمیائی اشیا کو ذخیرہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔2010 میں چک بازار میں کیمیائی اشیا کو ذخیرہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی،یہ علاقہ تنگ گلیوں، رکشوں،چھوٹی گاڑیوں اور لوگوں سے بھرا رہتا ہے۔ حتی کہ مسافر بسیں بھی ان گلیوں میں نہیں چل سکتی ہیں۔ان تنگ راستوں پر لٹکتی بجلی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی ہزاروں تاریں چوک بازار کے مقامی لوگوں کے لیے خطرہ ہیں۔لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ رہائشی عمارتوں کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس میں نچلی منزلوں کو کیمیائی اور گیس سلنڈرز کے گوداموں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔