نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت میں راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش
سپریم کورٹ میں زیر سماعت نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کی سماعت میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ مقدمے میں نامزد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمی میں پیش ہوگئے۔ راؤ انوار سخت سیکیورٹی حصار میں عدالت پہنچے ان کی گاڑی کو سپریم کورٹ کی بلڈنگ کے اندر لایا گیا۔ سماعت کا آغاز ہوا تو راؤ انوار روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے راؤ انوار سے استفسار کیا کہ آپ نے عدالت پر اعتبار کیوں نہیں کیا آپ عدالت کو خط لکھ رہے تھے۔ آپ تو بڑے دلیر تھے۔ اتنے دن کہاں تھے جس پر راؤ انور نے کہا کہ میری زندگی کو خطرات تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار نے سرنڈر کرکے کوئی احسان نہیں کیا۔ مفرور کے ساتھ قانون کی کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔ عدالت نے راؤ انوار کو جاری کیا گیا توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔ راؤ انوار کے وکیل نے استدعا کی کہ جے آئی ٹی میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو بھی شامل کر لیا جائے۔ عدلت عظمی نے تحقیقاتی ٹیموں پر راؤ انوار کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی نئی جے آئی ٹی تشکیل دیدی۔ عدالت کے حکم پر راؤ انورا کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت کے مطابق راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل رہے گا تاہم راؤ انوار کے اکاؤنٹ بحال کردیئے گئے۔ سپریم کورٹ کے مطابق جے آئی ٹی کے سربراہ آفتاب پٹھان اورآئی جی سندھ راو انوار کی حفاظت کے ذمہ دار ہونگے۔ محسود قبائل کے افراد راو انوار کو براہ راست یا بلواسطہ دھمکیاں نہیں دینگے۔ عدالت نے راو انوار کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیدیا۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں نقیب کے والد کا کہنا تھا کہ راؤانوار کی گرفتاری سے انصاف ہوتا نظرآرہا ہے۔ نقیب اللہ کےمعاملے پرپوری قوم نےآوازاٹھائی۔ میڈیا نے بھی بھرپورساتھ دیا۔