روس یوکرین جنگ: ایرانی تیل کی مانگ میں ریکارڈ کمی

یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے چین کو ایرانی خام تیل کی برآمدات میں تیزی سے کمی آئی ہے، کیوں کہ بیجنگ نے کم قیمت والے روسی خام تیل کی خریداری شروع کی ہے۔ ایران کا بحری جہازوں پر لدا 40 ملین بیرل خام تیل ایشیا میں موجود ہے مگر اسے خریداروں کی تلاش ہے۔ 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو پر عائد امریکی اور یورپی پابندیوں نے مزید روسی خام تیل کو مشرق کی طرف دھکیل دیا ہے، جہاں چین نے اسے اٹھایا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایران اور وینزویلا سے تیل کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک اس وقت پابندیوں کی زد میں ہیں۔ نیوی گیشنل ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ایران سے تیل سے لدے تقریباً 20 بحری جہاز مئی کے وسط تک سنگاپور کے قریب لنگر انداز تھے۔ تجارتی اور جہاز رانی کے ذرائع نے بتایا کہ فروری سے کچھ ٹینکرز وہاں لنگر انداز ہو چکے ہیں لیکن ایرانی خام تیل کو ذخیرہ کرنے والے بحری جہازوں کی تعداد اپریل سے تیزی سے بڑھی ہے۔ اس کی وجہ مشرق میں روس کے نسبتا سستے تیل کی طلب میں اضافہ ہے۔ ڈیٹا اور تجزیہ کرنے والی کمپنی کیپلرنے کہا کہ اس کا اندازہ ہے کہ سنگاپور کے قریب تیرتے ہوئے ذخیرے میں ایرانی خام تیل کا حجم مئی کے وسط میں بڑھ کر 37 ملین بیرل ہو گیا تھا جو اپریل کے شروع میں 22 ملین بیرل تھا۔ ماسکو کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے فوراً بعد امریکا نے روسی خام تیل کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی جب کہ یورپی یونین مرحلہ وار پابندی پر غور کر رہی ہے، جس سے روسی خام تیل کی مزید ترسیل ایشیا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تہران میں ایرانی آئل گیس اور پیٹرو کیمیکل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے بورڈ کے رکن حمید حسینی نے رائٹرز کو بتایا کہ روس اپنی برآمدات کا تقریباً نصف جنوب مشرقی ایشیا، خاص طور پر چین کی طرف موڑ سکتا ہے اور یہ ایران کی خام برآمدات کے لیے ایک بہت بڑا ممکنہ خطرہ ہے۔