میمو کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن فریقین اور درخواستگزاروں کی مشاورت سے قائم کیا جائےگا۔ چیف جسٹس

میموگیٹ کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے کی۔ عسکری قیادت کے جواب الجواب کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وفاق کے علاوہ تمام فریقین کا مؤقف ایک ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو عسکری قیادت کے بیان حلفی پر حکومتی مؤقف پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ابھی تک بابر اعوان کی پریس کانفرنس پر بھی وفاق کا جواب پیش نہیں کیا گیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جواب آج سپریم کورٹ کو موصول ہوجائیں گے۔ سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل رشید اے رضوی نے دلائل دیئے کہ آرمی چیف نےمیمو کی تحقیقات کی استدعا کی ہےجبکہ وزیراعظم نے بھی انکوائری کا حکم دے رکھا ہے ۔ سب چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہوں اس لیے کمیشن تشکیل دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ تمام فریقین اور درخواستگزاروں کی مشاورت سے اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ سماعت کے دوران امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حسین حقانی سے رابطے کے لیے ایک سے دو دن لگتے ہیں اوران تک آزادانہ رسائی حاصل نہیں ۔ حسین حقانی کو سکیورٹی کے ہمراہ رکھا گیا ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ملاقات نہ کرانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس نے عاصمہ جہانگیر کی ان کے مؤکل سے ملاقات کرانے کے بھی احکامات جاری کیئے۔ اس موقع پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ آپ ثابت کردیں کہ میمو سیاسی معاملہ ہے،میمو میں فوجداری اور سول الزامات ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ میمو کی تحقیقات پارلیمانی کمیٹی کررہی ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی کمیٹی قانون کےمطابق کارروائی نہیں کر سکتی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔