اپوزیشن کی سب باتیں مان سکتے ہیں لیکن احتساب کا عمل نہیں روک سکتے،عمران خان
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی سب باتیں مان سکتے ہیں لیکن احتساب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔لاہور میں پنجاب حکومت کی 100 روزہ کارکردگی سے متعلق تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ کئی لوگ اس 100 روزہ پلان کو جلسہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ نہیں بن سکتا۔انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ پرانی حکومتوں کی بات کرتے ہیں تو یہ کرنا ضروری ہے، جب تک آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ پہلا کیا تھا اور اب کیا ہے تو آپ کس سے اپنا موازنہ کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میری زندگی میں مشرقی پاکستان جدا ہوا، وہ جگہ پاکستان کے لیے اہم جگہ تھی اور جب میں نے ڈھاکا میں میچ جیتا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں لاہور میں کھڑا ہوں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ انصاف نہ ملنا انتشار کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے اور لوگ ملک سے علیحدگی کی مہم چلاتے ہیں، مشرقی پاکستان کے لوگ بھی مسلسل یہی کہتے رہے کہ ہمیں انصاف نہیں مل رہا لیکن انہیں نہیں سنا گیا اور حصہ الگ ہوگیا، لہذا ہمیں ان غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوئی اور ملک کے مخالف اسی کا فائدہ اٹھا کر ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ پنجاب حکومت نے صوبائی بجٹ کی منصفانہ تقسیم کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اگر یہ نہ کریں تو لوگ انتشار کی طرف جائیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سابق حکمرانوں نے ان منصوبوں کے لیے قرضے لیے جو ملک کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوئے۔انہوں نے کہا کہ انسداد تجاوزات کے دوران جو 160 ارب روپے کی زمین واگزار کروائی وہ میری نہیں ریاست کی زمین ہے، یہ عوام کی دولت ہے جس پر بڑے بڑے مافیاز نے قبضہ کیا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی عوام کے لیے ہورہی، کرپشن کے خلاف بھی کارروائی عوام کے لیے ہوتی کیونکہ جو بھی کرپشن کرتا اس کو عوام نے بھگتنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کرپشن میں حکومت نہیں عوام کا پیسا چوری ہوتا اور عوام کو ہی اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی، جو بھی معاشرہ آگے بڑھتا ہے وہ کرپشن کو پنمنے نہیں دیتا۔عمران خان نے کہا کہ کرپشن سے پورے معاشرے کو تباہ کردیا جاتا، وہی ملک خوشحال ہیں جہاں کرپشن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل نہیں روک سکتے کیونکہ یہ ملک کی سالمیت اور آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم قانون سازی کر رہے ہیں کہ ایک سال کے اندر سول کیسز کا فیصلہ کروانا ہے کیونکہ یہاں 30، 30 سال تک کیسز چلتے ہیں.عمران خان نے کہا کہ بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کا انٹرویو پڑھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ قائداعظم نے بہت پہلے کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جائے گا لیکن ہم نے مذہبی اقلیتوں کو برابر کے شہری ہونے کا احساس دینا ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بتانا ہے کہ ہم پاکستان میں اپنے اقلیتوں کو کیسے رکھتے ہیں اور آپ(ہندوستان) میں کیسے رکھتے ہیں۔