توہین عدالت کا ازخود نوٹس لینے والے ججزٹرائل میں نہیں بیٹھ سکتے۔ اعتزاز احسن
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے کی۔ وزيراعظم کے وکيل اعتزاز احسن نے دلائل دیئے کہ ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے انہیں اور ان کی پارٹی کو ججز اور بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔ آئين کے آرٹيکل ٹین اے کے حوالے سے اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ ججز جنہوں نے توہین عدالت کا ازخود نوٹس لیا ہو وہ ٹرائل کے اہل نہیں ہیں۔ موجودہ بینچ نے نوٹس جاری کيا اور فرد جرم عائد کی لہذا اب توہين عدالت کا معاملہ دوسرے بنچ کو بھيجا جانا چاہيئے۔جسٹس آصف کھوسہ نے ريمارکس ديئے کہ توہين عدالت ميں جج شوکاز نوٹس جاری کرتا ہے، پوچھتا ہے کہ کيوں نہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے، يہ کارروائی نہيں جس کی آپ نشاندہی کر رہے ہيں۔ اعتزاز احسن نے اپنے دلائل ميں مزيد کہا کہ توہين عدالت آرڈيننس دوہزار تین آئين کے آرٹيکل ٹین اے سے متصادم ہے۔اس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے استفسار کيا کہ آپ چاہتے ہيں ہم اسے کالعدم قرار دے ديں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ريمارکس ديئے کہ سترہ رکنی بينچ نے اين آر او کا فيصلہ ديا،تعصب کے نکتے کو اس قدر بڑھايا گيا تو مقدمے کی سماعت نہيں ہو سکے گی. اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ معاملہ پسند يا نا پسند کا نہيں، جو جج کارروائی شروع کرتا ہے وہ معاملے کی سماعت نہيں کرتا، آرٹيکل ٹین اے کے تحت کارروائی کا مطالبہ تعصب نہيں، اس طرح شفاف ٹرائل کا مطالبہ پورا نہيں ہوتا۔عدالت ميں اپنی گزارشات پيش کی ہيں، ججوں پر عدم اعتماد کی دليل نہيں دی۔انہوں نے کہا کہ کوئی قانون بنيادی حق سے متصادم ہے تو اسے چيلنج کيا جائے يا نہيں، عدالت کا فرض ہے کہ اسے کالعدم قراردے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ريمارکس ديئے کہ چيلنج کياجائے تو عدالت آئينی حيثيت کا تعين کرسکتی ہے. عدالت نے کیس کی سماعت پیر کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی ہے۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ میڈیا کے ایک سیکشن نے ان کی بحث کو غلط رنگ دیا، بیس اپریل دوہزار دس کی ترمیم کے بعد ازخود نوٹس لینے والے ججز کیس کا ٹرائل نہیں کرسکتے۔