سپریم کورٹ نے ورکرز ویلفیئر فنڈکے 124 ارب روپے کے اکاﺅنٹس کی تفصیلات مانگ لیں

سپریم کورٹ نے ورکرز ویلفیئر فنڈکے 124 ارب روپے کے اکاﺅنٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے آئندہ جمعرات کو سیکرٹری خزانہ اور سیکریٹری وزارت اور سیز کو طلب کرلیاعدالت نے قراردیاکہ آئندہ سماعت پر اگر یہ دونوں سیکرٹریز حاضر نہ ہوئے تو متعلقہ وزرا کو بلا لیں گے، عدالت نے قراردیا کہ وزارت خزانہ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے نمائندوں نے غلط بیانی کی تاہم آئندہ اس حوالے سے محتاط رہیں ، عدالت نے ہدایت کی کہ تمام فریقین ایک ہفتے کے اندر اندر صنعتی کارکنوں کو اموات، شادی اور تعلیمی وظائف دینے کے حوالے سے پالیسی مرتب کریں، جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبوں کے بے حسی کی وجہ سے بچوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان کے مزدور حکومت کے ریڈار پر ہی نہیں ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میںدورکنی بینچ نے ورکر ویلفیر فنڈ کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ حکام بتائیں کہ ورکر ویلفیر فنڈ کے پیسے کس کے پاس ہیں؟ جوائنٹ سیکرٹری فنانس نے بتایا کہ پیسے ورکر ویلفیر فنڈ کے پاس ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جن اداروں کے نمائندے آج پیش نہیں ہوے انکے وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے ،فنانس والے کہہ رہے ہیں پیسے ورکر ویلفیر فنڈ کے پاس ہیں جبکہ ورکر ویلفیر والے کہہ رہے ہیں پیسے فنانس ڈویژن کے پاس ہیں،عدالت کے ساتھ عجیب و غریب مذاق ہو رہا ہے، جوائنٹ سیکرٹری فنانس ڈویژن کا کہنا تھا کہ یہ پیسہ حکومت کا نہیں ہے، جسٹس عظمت سعید نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ عدالت کو لیکچر نہ دیں ہمیں معلوم ہے پیسہ کس کا ہے بتائیں کہ کیا کہیں یہ لکھا ہے کہ عدالت کے ساتھ سچ نہیں بولنا۔یا کوئی ہدایات ہیں کہ عدالتی کاروائی چلنے نہیں دینی، سیکرٹری خزانہ اور اٹارنی جنرل کو بلا لیں،عدالت کے ساتھ غلط بیانی کرنے والوں کے ساتھ کاروائی کریں گے،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت مہلت دے تو ہدایات لے کر موقف پیش کر دوں گا جسٹس عظمت نے کہاکہ عدالت کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ارب روپیے ہیں اور کسی کو پتہ ہی نہیں کہ کس کے پاس ہیں، عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور سیکرٹری خزانہ کو بلانے کی ہدایت کردی ، وقفہ کے بعد سماعت کا دوبار ہ آغاز ہواتوجسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ وزارت خزانہ کے نمائندے نے کہا پیسہ ورکرز ویلفیر فنڈ کے پاس ہے جبکہ ورکرز ویلفیر فنڈ والے کہتے ہیں وزارت خزانہ کے پاس ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے کہاکہ وفاق سے صوبے کو ورکرز ویلفیر فنڈ کی کوئی گرانٹ ادا نہیں ہوئی تعلیم کے لیے بھی فنڈز جاری نہیں ہو رہے۔ ۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق مرزا نے بتایا کہ صوبے کو چار سال سے فنڈز نہیں مل رہے ۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ورکرز کو اگر فنڈ ادا نہیں ہوں گے کیسے کام چلے گا۔ ڈیتھ گرانٹ اور شادی تک کے لیے فنڈز نہیں دیئے جارہے۔تعلیم کے لیے ویسے بھی پیسے جاری نہیں ہوتے تاکہ انکا کام نہ رک جائے۔ جسٹس عظمت سعیدکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں غریب آدمی کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے وصولی روک رکھی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ پنجاب حکومت نئی وصولیاں کیوں نہیں کر رہا؟تاہم اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا سند ھ کے وکیل نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ایکٹ بنا لیا ہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ پنجاب ۔ بلوچستان اور کے پی کے ایکٹ کیوں نہیں بناتے؟ عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری خزانہ اور سیکریٹری اور سیز کو طلب کرتے ہوئے قراردیاکہ آئندہ سماعت پر اگر یہ دونوں سیکرٹری حاضر نہ ہوئے تو ان وزارتوں کے وزرا کو بلا لیں گے، عدالت نے ورکرز ویلفیئر فنڈکے 124 ارب روپے کے اکاﺅنٹس کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی عدالت نے قراردیا کہ وزارت خزانہ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے نمائندوں نے غلط بیانی کی تاہم آئندہ اس حوالے سے محتاط رہیں ، عدالت نے ہدایت کی کہ تمام فریقین ایک ہفتے کے اندر اندر صنعتی کارکنوں کو اموات، شادی اور تعلیمی وظائف دینے کے حوالے سے پالیسی مرتب کریں ۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبوں کے بے حسی کی وجہ سے بچوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان کے مزدور حکومت کے ریڈار پر ہی نہیں ہیں، حکومت کچھ نہیں کر رہی اور ورکروں کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے، 124 ارب روپے حکومت نے ورکرز سے وصول کر رکھے ہیں ،درخواست گزار چوہدری عبد الرحمن نے بتایا کہ 2016 سے اب تک ورکرز کو اموات، شاری اور تعلیمی وظائف کی ادائیگی نہیں کی جا رہی۔ حکومت نے 124 ارب کے علاوہ 48 ارب بھی وصول کیا ہے جو کسی اکاﺅنٹ میں نظر نہیں آرہا، درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بچوں کو وظائف نہ ملنے کے باعث یونیورسٹیوں سے نکالا جا رہا ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جن لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں کیا وہ مردے رکھ کرگرانٹ کا انتظار کریں؟کیابچیوں کی شادیاں اور وظائف روکے رکھیں گے،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ پنجاب کو اگر فوری طور پر 2 ارب مل جائیں تو معاملہ ابتدائی طور پر حل ہو جائے گا،جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ یہ کوئی زکوة یا ادھار نہیں مانگ رہے ، یہ ورکروں کا اپنا پیسہ ہے، اس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایک ہفتے کا وقت دینے کی درخواست کی تو عدالت نے ان کی درخواست پر آئندہ جمعرات تک معاملہ حل کرنے کی ہدایت کردی ۔