میمو گیٹ کمیشن کی تحقیقات کے لئے قائم کمیشن کے سامنےپیشی میں صرف ایک روز باقی، منصور اعجاز کی پاکستان آمد سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔

پاکستانی نژاد امریکی تاجر کی پاکستان آمد کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کے باعث جہاں ابہام بدستور برقرار ہے وہیں میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات کی تکمیل میں مزید التواء کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے منصور اعجاز کو ایک سال کا ملٹی پل ویزہ جاری کردیا گیا ہے لیکن ان کی سکیورٹی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں۔ خود منصور اعجاز کا کہنا ہے کہ ان کو مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں اور اس وجہ سے انہوں نے اپنا دورہ پاکستان کا شیڈول خفیہ رکھا ہوا ہے جبکہ منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے موکل عدالتی کمیشن میں طے پانے والے سکیورٹی کے انتظامات پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں، اگروہ مطمئن نہ ہوئے تو منصور اعجاز کا بیان کسی محفوظ مقام سے ریکارڈ کیا جائے گا۔اکرم شیخ کا موقف ہے کہ میمو کمیشن کی جانب سے طے کئے جانے والے سکیورٹی انتظامات میں ایف سی اور رینجرز کا کوئی ذکر نہیں بلکہ تمام تر ذمہ داری پاک فوج کے خصوصی دستے کو سونپی گئی ہے لیکن حکومتی اقدامات اس کے برعکس ہیں۔ اکرم شیخ کے مطابق انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کو خط میں بھی یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے منصور اعجاز کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی ہدایت ملنے پر من و عن عمل کے بیان نے بھی صورتحال کو غیر واضح کردیا ہے، وزیر داخلہ کے مطابق منصور اعجاز کی سکیورٹی وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے، فوج یا آئی ایس آئی کی نہیں۔ادھر یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق منصور اعجاز کے بیان کو بنیاد بنا کر ایف آئی اے نے بھی مقدمے کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے اور انہیں پاکستان اترتے ہی حراست میں لے لیا جائے گا،اب دیکھنایہ ہے کہ منصوراعجازپاکستان آتے ہیں یانہیں اگروہ پاکستان آئیں گے تومیموکمیشن کوتحقیقات میں مدد ملے گی لیکن اگروہ پاکستان نہ آئے تومیموگیٹ کامعاملہ مزید سنگین ہوسکتاہے