منی لانڈرنگ کیس میں خواجہ آصف کی ضمانت منظور

جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے خواجہ آصف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دئیے کہ خواجہ آصف سیالکوٹ ڈیری سے انیس سو ستاسی سے انتالیس ہزار تنخواہ ماہانہ لیتے تھے۔ انیس سو اکیانوے میں خواجہ آصف پہلی بار سینیٹر جبکہ انیس سو ترانوے میں ایم این اے بنے اور پانچ اعشاریہ ایک ملین کے اثاثے ظاہر کئے۔ ملزم نے مقامی کاروبار سے پچاس اعشاریہ انسٹھ ملین روپے کی انکم ظاہر کی ہے۔ خواجہ آصف ابوظہبی سے پاکستان میں اپنے اکاؤنٹ میں رقم بھیجتے رہے مگر نہیں بتایا کہ یہ پیسہ تنخواہ کی مد میں آیا یا ان کی کوئی پارٹنرشپ تھی۔ جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دئیے کہ نیب کے دو جوابات میں متضاد موقف سامنے آیا ہے۔ آپ کو بتانا ہوگا کہ خواجہ آصف نے کتنی رقم اکاؤنٹس میں جمع کروائی۔ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ پہلے جواب میں دو سو تیس ملین منفی بیلنس تھا دوسرے میں منفی بیلنس ایک سو پچاس ملین کردیا۔ یہ نیب کی نیک نیتی ہے کہ خواجہ آصف کی متنازع رقم میں کمی کی۔ جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دئیے نیب نے اپنا موقف خود تبدیل کرلیا ہے۔ کیا نیب کا کام یہی تھا کہ آپ کے افسر دفاتر میں بیٹھے رہیں اور ملزم خود آکر دستاویزات دے اور نیب اس پر فیصلہ کردے نیب خود تو وضاحت نہیں دیتا مگر لوگوں سے پوچھتا ہے کہ وضاحت دو۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ تحریری جواب میں آپ کہہ رہے ہیں کہ تحقیقات جاری ہیں اور تفتیشی آکر کہتا ہے عدالت سے وقت لیا جائے کہ ریفرنس منظوری کیلئے بھیجا ہوا ہے نیب غیرجانبدار رہے۔ خواجہ آصف کے وکیل نے اقامہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ابوظہبی کمپنی کا موقف ہے کہ جب عدالت بلایا جائے گا پیش ہوں گے۔ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ خواجہ آصف نو ہزار درہم لیا کرتے تھے۔ ابوظہبی کی کمپنی نے خواجہ آصف کی بتائی گئی رقم کی تصدیق نہیں کی۔ عدالت نے ریمارکس دئیے آپ اقامہ کو مانتے ہیں مگر ان کی شرائط کو نہیں مانتے تھوڑی آنکھیں کھول لیجئے، یہ سارا کچھ اقامہ پر لکھا ہوا ہے جو ریکارڈ نیب کو فائدہ دے رہا وہ نیب نے ریکارڈ کرلیا اور جو ریکارڈ خواجہ آصف کو فائدہ دے رہا ہے نیب اس کو ریکارڈ نہیں کررہا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد خواجہ آصف کی ضمانت منظور کرلی