پاکستان کے عدالتی نظام کے خلاف سب سے بڑی شکایت مقدمات کی تاخیر ،18 لاکھ مقدمات زیر سماعت
پاکستان کی عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں۔پاکستان کے عدالتی نظام کے خلاف سب سے بڑی شکایت مقدمات کی تاخیر سے تکمیل کے حوالے سے ہے جبکہ ماہرین کے اندازوں کے مطابق ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطا 15 سے 20 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان(ایل اینڈ جے سی پی) کے سیکریٹری ڈاکٹر رحیم اعوان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کہ عدالتوں میں مقدمات زیادہ ہیں آپ کسی بھی چھوٹے کورٹ کے ایک بھی جج کا ریکارڈ اٹھا لیں تو نظر آئے گا کہ انھیں ایک دن میں 150 سے 200 کیس سے نمٹنا ہوتا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے۔ اگر تمام کیسز کو سننا ہو تو ان کے پاس فی کیس صرف ڈیڑھ منٹ کا وقت ہوتا ہے۔ ایسی حالات میں جج کیا کرے گا، اس کے پاس تو سانس لینے کا بھی وقت نہیں بچے گا؟ایل اینڈ جے سی پی کی جانب سے کی گئی تحقیق سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی تمام عدالتیں، جن میں سپریم کورٹ، شریعت کورٹ، تمام ہائی کورٹ اور ڈسرکٹ کورٹس شامل ہیں، ان میں ساڑھے 18 لاکھ سے زائد کیسز سنے جا رہے ہیں۔جنوری 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت 38000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت موجود کیسز کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے جو کہ 150000 سے اوپر ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ ہائی کورٹ ہے جہاں 94000 کیسز ہیں۔پشاور ہائی کورٹ میں اس وقت 30000 کیسز جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں صرف 6000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں البتہ 16000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔اگر ڈسٹرکٹ عدلیہ کا معاملہ دیکھا جائے تو وہاں بھی پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں واضح طور پر مقدماعت کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔اس وقت پنجاب میں 11 لاکھ کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کیسز سندھ کی ڈسٹرکٹ عدلیہ میں ہیں جہاں 96000 کیسز کہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔ڈاکٹر رحیم نے بتایا کہ ان کے ادارے کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق اس کی بڑی وجہ ججوں کی کم تعداد ہے۔بشمول سپریم کورٹ، ملک کی اعلی عدالتوں میں اس وقت ججوں کی کل تعداد 146 ہے جبکہ کل اسامیوں کی تعداد 167 ہے۔لاہور ہائی کورٹ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کل 60 اسامیاں ہیں لیکن وہاں اس وقت 49 جج کام کر رہے ہیں۔ایل اینڈ جے سی پی کے مطابق مقدماعت کو تیزی سے نپٹانے کے لیے دوسرے ممالک میں ججوں کی تعداد آبادی کی نسبت پاکستان کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔پاکستان میں ہر دس لاکھ آبادی کے لیے 12 جج مختص ہیں جبکہ انڈیا میں یہ تعداد 18 ہے۔ اگر مغربی ممالک سے موازنہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ برطانیہ میں یہ تعداد 51 ہے جبکہ کینیڈا میں 75 اور امریکہ میں دس لاکھ کی آبادی کے لیے 107 ججز متعین ہیں۔دوسری جانب اگر کیسز کی تعداد کو ججوں پر تقسیم کی جائے تو یہ صورتحال مزید واضح ہو جاتی ہے۔صوبہ پنجاب میں دسمبر 2017 کے اختتام پر تقریبا دس لاکھ سول اور فیملی کیسز کا فیصلہ ہونا باقی تھا اور انھیں نمٹانے کے لیے صرف 938 ججز موجود ہیں جس کے مطلب ہے کہ ایک جج 1000 سے زیادہ کیسز کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ایل اینڈ جے سی پی کی سفارشات کے مطابق اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول اور فیملی کیسز کے لیے ججوں کی تعداد کو بڑھا کر تقریبا 2000 کرنا ہوگا تاکہ ایک جج پر 500 مقدماعت کی ذمہ داری ہوگی۔اس بارے میں لاہور کے وکیل رضا علی سے جب بات کی گئی تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ججوں کی کم
تعداد مقدماعت کے التوا کی وجہ تو ہیں لیکن ان کے مطابق مقدماعت کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وکلا برادری خود ہیں۔'مقدماعت کے حل میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ وکیل خود ہیں۔ اگر مدعی اور ملزم کے وکلا اس بات پر مصر ہوں کہ وہ مقدمہ حل کرنا چاہتے ہیں، تو کوئی بھی جج ان کو نہیں روک سکتا، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔'انھوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں وکلا کی جانب سے ہڑتال کرنے کا رجحان بھی تاخیر کا باعث بنتا ہے۔رضا علی نے مزید کہا کہ مقدماعت کو حل کرنے کے عمل کے لیے مرکزی ذمہ داری بار اور بینچ پر ہوتی ہے۔رضا علی کے مطابق وکلا کی تعلیمی قابلیت کی تصدیق اور جانچے بغیر انھیں لائسنس دینا ناقص معیار کے وکلا عدلیہ کے دھارے میں شامل کرنے کا سبب بنتا ہے اور اس کی وجہ سے کئی وکیل اپنی ذمہ داری مناسب طریقے سے پوری نہیں کرتے۔'ججوں کی کم تعداد اور وسائل کی کمی کے باوجود، مقدماعت کی تکمیل کی حتمی اور اصل ذمہ داری دونوں فریقین کے وکیلوں پر عائد ہوتی ہے۔