اٹلی، چین کی نئی شاہراہ ریشم میں شامل پہلا یورپی ملک، معاہدے پر دستخط
اٹلی نے چین کے ساتھ اس کی نئی شاہراہ ریشم کا حصہ بننے کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اٹلی جی 7 کا پہلا ملک ہے جو چین کے متنازعہ بیلٹ اینڈ روڈ سرمایہ کاری پروگرام کا حصہ بنا ہے۔چین کے صدر جمعرات کو اٹلی کے دارالحکومت روم پہنچے تھے اور امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ اٹلی کے ساتھ مواصلات کے شعبے میں ایک ایسے تاریخی معاہدے پر دستخط کریں گے جسے اٹلی کے مغربی اتحادی شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
کل ملا کر 2.8 ارب ڈالر کے 29 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ صدر شی جنگ پنگ کا منصوبہ ایک نئی شاہراہ ریشم بنانے کا ہے جو چین کو یورپ سے جوڑ دے۔اس نئی تجارتی راہداری سے اٹلی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اسے نہ صرف چینی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے بلکہ چین سے خام مال درآمد کرنے کے نئے مواقع بھی ہاتھ آ سکتے ہیں لیکن چین کے اس بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے امریکہ اور یورپی یونین میں شامل اٹلی کے دوسرے اتحادی فکرمند ہیں اور وہ چین کی نیت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔چین کی اس نئی شاہراہ ریشم کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹِو یا بی آر آئی بھی کا جاتا ہے۔
اس منصوبے کے تحت چین دنیا بھر میں مواصلات یا انفراسٹکچر کا ایک جال بچھا رہا ہے اور اس کے لیے بھاری رقوم فراہم کر رہا ہے۔ چین کے بقول اسں سرمایہ کاری کا بڑا مقصد چینی مصنوعات کو نہایت تیزی سے دور دراز کی منڈیوں تک پہنچانا ہےتاہم ناقدین کہتے ہیں کہ چین نئے سمندری اور زمینی راستوں سے تجارت کے علاوہ عالمی سیاست میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔اب تک چین ریل کی پٹریوں، سڑکوں اور بندرگاہوں پر بھاری رقوم خرچ کر چکا ہے اور یہ نہایت پرکشش تعمیراتی ٹھیکے چینی کپمنیوں کو دیے گئے جن کے لیے چینی بینکوں نے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے۔
مغربی ممالک کہتے ہیں کہ ان منصوبوں کی وجہ سے افریقہ اور جنوبی ایشیائی ممالک پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر چین یہ سرمایہ کاری نہ کرتا تو ان ممالک میں نہ ریل کے نئے راستے بنتے اور نہ ہی سڑکیں۔یوگنڈا میں بین الاقوامی ایئر ہورٹ تک رسائی کے لیے چین نے 50 کلومیٹر طویل سڑک پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔تنزانیہ میں واقع ایک چھوٹا سا ساحلی شہر اب براعظم کی سب سے بڑی بندرگاہ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔یورپ میں چینی کپمنیاں اینتھنز کے قریب ایک بندرگاہ کو چلانے والی کمپنی کے 51 فیصد حصص خرید چکی ہیںلیکن اٹلی امیر ترین ملکوں کے اتحاد جی سیون میں شامل وہ پہلا ملک ہو گا جو چین سے امداد لینے جا رہا ہے۔
اگرچہ اٹلی دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہے لیکن پھر بھی روم آج کل کچھ پریشان ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں ایک بڑے پل کے منہدم ہونے سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد سے اٹلی کی قدیم بوسیدہ عمارتیں پہلی مرتبہ ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن چکی ہیں۔اور اٹلی کی معیشت شدید مشکلات کی شکار ہے۔معیشت کی اس بد حالی کا آغاز سنہ 2018 میں اس وقت ہوا تھا جب دیکھتے ہی دیکھتے اٹلی یورپی یونین کے سب سے زیادہ مقروض ممالک میں شامل ہوگیا۔ پھر جون 2018 میں ایک نئی عوامیت پسند حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ سرمایہ کاری کے بڑے بڑے منصوبے لیکر آئی لیکن جلد ہی اسے یورپی یونین کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے ان منصوبوں کو پس پشت ڈالنا پڑ گیا۔
یہی ہے وہ پس منظر جس میں اب چین نے اٹلی میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی اور چینی امداد سے ماضی کی بحری شاہراہ ریسشم کے کنارے واقع اٹلی کے قدیم ساحلی شہروں کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔ اٹلی کے وزیر اعظم اس حوالے سے تریئستے اور گنووا کی بندرگاہوں کا ذکر کر چکے ہیں۔اٹلی کے نائب وزیر برائے تجارت و سرمایہ کاری مسٹر گراسی کے بقول دنیا میں چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ہم اپنی کمپنیوں کے لیے ایک اچھا موقع سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے یورپی اتحادیوں میں سے اٹلی پیچھے رہ گیا ہے اور ہم پہلے ہی وقت ضائع کر چکے ہیں۔
یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے منسلک عالمی تاریخ کے ماہر پروفیسر پیٹر فرینکوپان کہتے ہیں کہ اٹلی کا یہ قدم زیادہ تر علامتی ہے لیکن پھر بھی ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اٹلی اس چینی منصوبے میں کیوں شامل ہو رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اٹلی کے اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا ایک اہم عالمی کردار موجود ہے۔لیکن پروفسیر فرینکوپان کے بقول اس میں اٹلی کے لیے مسائل بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر چین سے بندرگاہوں، ریلوے لائنوں وغیرہ کے لیے سرمایہ نہیں آتا تو پھر پیسہ کہاں سے آئے گا۔روم آمد سے پہلے چینی صدر نے کہا تھا کہ چین اور اٹلی کے درمیان دوستی کی جڑیں عظیم تاریخی اثاثے سے جڑی ہوئی ہیں۔
ایک مضمون میں پروفیسر فرینکوپان نے لکھا اٹلی میں بنا ہوا( Made in Italy) کی مہر کے معنی یہ ہوتے تھے کہ یہ چیز معیاری ہے۔ چاہے یہ اطالوی فیشن ہو یا کوئی اور چیز۔ یہ چیز چینی صارفین کے لیے بڑی بات ہے۔ اسی طرح نوجوان چینی لوگ پیزا اور ترمسو بھی پسند کرتے ہیں۔ میڈ اِن اٹلی کی مہر دنیا بھر میں معیاری مصنوعات کی علامت سمجھتی جاتی ہےلیکن گذشتہ کچھ برسوں سے اٹلی میں قائم چینی کمپنیوں نے اس مہر پر سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں اور جب چین سے کم قیمت خام مال کی برآمد اور اٹلی سے مصنوعات کی برآمد میں اضافہ ہو جائے گا تو اس قسم کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
چینی صدر کے دورے کے دوران جن معاہدوں پر دستخط ہونے جا رہے ہیں ان میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا چینی کمپنی ہوواوے کو اٹلی میں ذرائع مواصلات کے ٹھیکے ملیں گے یا نہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ پہلے ہی اس کمپنی پر الزام لگا چکا ہے کہ یہ مغربی ممالک میں چینی حکومت کے لیے جاسوسی کرتی ہے۔اگرچہ یہ بات چین اور اٹلی کے درمیان حالیہ مذاکرات میں باقاعدہ شامل نہیں ہوگی تاہم تقریبا ایک ہفتہ پہلے یورپی کمیشن نے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور اس کے سیاسی اثرات اور اس کی روشنی میں چین کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کے حوالے سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
اسی طرح مارچ میں امریکہ کے قومی سلامتی کے ادارے کے ترجمان نے کہا تھا کہ اٹلی ایک بڑی معیشت ہے اور اسے نہیں چاہیے کہ وہ چین کے ان تعمیراتی منصوبوں کو پذیرائی بخشے جو محض دکھاوے کے ہیں۔تاہم دوسری جانب اطالوی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو معاہدے ہو رہے ہیں وہ کوئی ایسے بین الاقوامی معاہدے نہیں ہیں جن پر عمل در آمد ضروری ہے۔اٹلی کے نائب وزیر برائے تجارت و سرمایہ کاری مسٹر گراسی کہتے ہیں کہ ہم خاص منصوبوں کی بات نہیں کر رہے ہیں، بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان جو معاہدہ ہو رہا وہ ایک قسم کی منظر کشی ہے کہ آئندہ دونوں ملکوں کے درمیان کس قسم کا تعاون ہو سکتا ہے۔وزیر کے بقول دیگر یورپی ممالک پہلے ہی چینی سرمایہ کاری کو قبول کر چکے ہیں۔
مثلا برطانیہ چین کے ایشیئن انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک سے مالی مدد پر رضامند ہونے والا پہلا یورپی ملک تھا۔ اس کے بعد فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت ہر ملک اسی راستے پر چل رہا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس مرتبہ اٹلی اس معاملے میں دیگر یورپی ملکوں سے آگے ہے شاید یہی وجہ ہے کہ سب کو حیرت ہو رہی ہے۔