ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کا مین سرور ڈی کوڈ کر لیا ہے
ایگزیکٹ کیخلاف ایف آئی اے کی انکوائری جاری ہے ،،تفتیش کاروں کو ایک اہم کا میابی اس وقت حاصل ہوئی جب وہ کمپنی کا مین سرور ڈی مکوڈ کرنے مین کامیاب ہو گئے ،سرور سے حاصل ہونیوالے ڈیٹا کے مطابق کمپنی کے بیالیس ہزار طالبعلم ہیں جبکہ ساٹھ سے زیادہ یونیورسٹیز کی ڈگریاں بیچی جاتی تھیں ایف آئی اے کے مطابق ابتدائی انکوائری منگل تک مکمل ہونے کا امکان ہے ،،ادھر کارپوریٹ کرائم سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر سعید احمد میمن نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ چورانوے کے تحت سیشن جج ساؤتھ کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی ۔جس میں کہا گیا تھا ایگزیکٹ نے جعلی دستاویزات کے زریعے پانچ بنکوں میں چونتیس اکاونٹ کھولے۔ اور غیر قانونی ترسیلات کی کی لہذا ان بنک اکاونٹ کو چیک کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے ایف آئی او کو بنک اکاونٹ تک رسائی دے دی،،ادھر وزیر داخلہ چوہدری نثار آج شام پنجاب ہاؤس میں ایگزیکٹ کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس کرینگے،،اس سے پہلے وزیر داخلہ ایک اہم اجلاس کی صدارت بھی کرینگے نیویارک ٹائمز کے نمایندے ڈیکلن والش نے ایگزیکٹ اسکینڈل کے بارے میں مزید انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس پران کے دیےگئے ٹیلی فون نمبروں کو بند کردیا گیا ہے امریکی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ڈیکلن والش نے کہا ہے کہ ایگزیکٹ کمپنی جعلی ڈگریوں کے دھندے سے ایک روز کے دوران ایک لاکھ ڈالر کما لیتی تھی،،خواہشمند حضرات کو دس سے پندرہ روز کے دوران ڈگری جاری کردی جاتی تھی،ڈکلن والش نے نیویارک کی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا ہے کہ ایگزیکٹ کمپنی نے مالیاتی امور نمٹانے کے لیے بیس کمپنیاں بنا رکھی تھیں،ایگزیکٹ کمپنی کی جانب سے کہا جاتا تھا کہ ان سے الحاق شدہ بعض تعلیمی اداروں کوگذشتہ دس برسوں سے چلایا جارہا ہے، ان اداروں میں بعض کو امریکن سکول کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، ڈکلن والش کا کہنا تھا کہ جعلی ڈگریوں کی معلومات آنے کے بعد چند روزروزکمپنی نے امور اور تعلیمی ادارے بھی اب خاموش ہوچکے ہیں ایگزیکٹ کمپنی کے سابقہ ملازمین کے اعترافی بیانات کا سلسلہ جاری ہے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق ایگزیکٹ کمپنی کے سابقہ ملازم سیلز ایجنٹ سکندر ریاض کا کہنا تھا کہ وہ ہینک موڈی کے نام سے جعلی ڈگریاں فروخت کرتا تھا،اسے اسلام آباد میں قائم کال سنٹر سے ہاروی یونیورسٹی اور نکسن یونیورسٹی کی جعلی ڈگریاں دینے کا ٹاسک دیا گیا تھا،ایک اور سابق ملازم احمد نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس نے بیلفورڈ،لورینز اور ایڈیسن نامی جعلی ہائی اسکولز کے نام پر تین ماہ میں پانچ لاکھ ڈالرز کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں، دو ہزار بارہ میں ملازمت چھوڑنے تک کمپنی ایک دن میں اسی ہزار سے ایک لاکھ ڈالرز یومیہ کمارہی تھی ،احمد کا کہنا تھا کہ بہت سے کسٹمرز امریکی نوجوان تھے جو آئن لائن ڈپلومہ لیکر عراق اور افغانستان کی جنگ میں جانا چاہتے تھے جعلی ڈگری سکینڈل میں ملوث کمپنی ایگزیکٹ نے 1997 میں کراچی میں ایک کمرے کے دفتر سے کام شروع کیا، اور ترقی کرتے ہوئے 120ممالک تک اپنا نیٹ ورک وسیع کرلیا آئی ٹی کمپنی کے طور پر ایک کمرے سے ایگزیکٹ نے اپنا کام 1997 میں شروع کیا، ایگزیکٹ کمپنی شروع میں ایک سوفٹ وئیر ہاؤس تھی، جو رفتہ رفتہ اپنے شعبوں کو بڑھاتے ہوئے کئی کمپنیوں پر محیط ہوگئی، آج اس کمپنی کے 120ممالک کے 13 سو شہروں میں دفاترموجود ہیں،جہاں پچیس ہزار ملازمین کام کررہے ہیں،،کمپنی کے چئیرمین اور سی ای او شعیب شیخ ہیں، اور وائس چئیرمین کا نام وقاص عتیق ہے،کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2019کے لیے ایک پلان کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس کے مطابق تعلیم، ہیلتھ کئیر، جوڈیشل اسسٹنس اور رہائش کے منصوبوں سمیت مختلف سیکٹرز میں سرمایہ کاری کی جائے گی، پلان کے مطابق 2012 کی 35فیصد جی ڈی پی شرح کو 80 فی صد تک لے جایا جائے گا،ایگزیکٹ کمپنی اس وقت اپنی سرگرمیوں کو آئی ٹی شعبے کے علاوہ کئی دوسرے شعبوں میں بھی کام کررہی ہے، جس میں سب سے اہم اس وقت تعلیم کا سیکٹر ہے، کمپنی آن لائن دوسرے تعلیمی اداروں سے مبینہ الحاق کے نام پر کئی یونیورسٹیاں اور کالجز چلا رہی ہے،جس کے ذریعے جعلی ڈگریوں کی تقسیم کے لیے کروڑوں ڈالر کمائے جارہے ہیں،اس کے علاوہ کمپنی کی ویب سائٹ پر ہیلتھ کئیر کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے،،جبکہ کمپنی کی جانب سے آئی ٹی کے شعبے میں یہ ارادہ کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ برسوں میں سوفٹ ویئر کی مدد سے 50ارب ڈالر مالیت کے سوفٹ وئیر برآمد کرنےکے قابل ہوجائے گی،اس کے علاوہ سندھ میں غریبوں کے لیے انصاف کی فراہمی کے لیے مفت مدد فراہم کرنے کا منصوبہ بھی کمپنی کی جانب سے چلایا جارہا ہے،