ایون فیلڈ ریفرنس: سابق وزیراعظم کا بیان قلمبند، اپنے دفاع میں گواہ لانے سے انکار
ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت میں نوازشریف کا بیان مکمل ہوگیا۔ انکا کہنا تھا کہ مجھے سیسیلین مافیا، گارڈ فادر، وطن دشمن اور غدار کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان کا بیٹا ہوں اس مٹی سے پیارہے۔ کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا توہین سمجھتا ہوں۔ داخلہ اور خارجہ پالیسی منتخب نمائندوں کے پاس ہونی چاہیے۔ زرداری صاحب نے کہا مشرف کے دوسرے مارشل لاء کی توثیق کردیں۔ سنگین غداری کا ملزم گاڑیوں کے قافلے میں ہسپتال پہنچا۔ کوئی قانون اسے ہتھکڑی نہیں لگا سکا۔ انکا کہنا تھا کہ مارچ دوہزار چودہ میں عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر خوشگوار ماحول میں ملاقات کی۔ پھر اچانک دھرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم استعفی دیں۔ ان کے منہ میں مطالبہ کس نے ڈالا۔ منصوبہ سازوں کا پلان یہ تھا کہ وزیراعظم کے اعصاب کمزور ہوں گے۔ ایک انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کا پیغام دیا گیا کہ وزارت عظمی سے مستعفی ہوجاؤ یا طویل چھٹی لے کر باہر چلے جاؤ۔ ایسا پیغام افسوناک تھا۔ انکا کہنا تھاکہ فوج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ آمروں نے پاکستان کے وجود پر گہرے زخم لگائے ڈکٹیٹروں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ میرے دور میں دفاعی بجٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ سی پیک بنا، کراچی اور بلوچستان میں امن قائم کیا۔ دہشت گردی ختم کی ۔ مردم شُماری کروائی۔ فاٹا اصلاحات کیں، سکیمیں لے کر آیا ، نوجوانوں کے لیے روزگار مہیا کیا ۔ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا۔ ہزاروں میگا واٹ بجلی میں اضافہ ہوا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ہمارے امیدواروں کو شیرکے نشان کی بجائے بے چہرہ کر دیا گیا۔ اس ریفرنس میں ستر سے زائد پیشیاں بھگت چکا ہوں۔ کیا جے آئی ٹی بنانے کے لیے واٹس اپ کال سمیت مخصوص افراد کا تقرر نہیں کیا گیا۔ کیا ماضی میں سپریم کورٹ کے کسی جج نے جے آئی ٹی کی نگرانی کی۔ جو جج میرے خلاف فیصلہ دے چکا ہے اسے ہی میرے خلاف نگران جج بنا دیا گیا۔ مائنس ون کا اصول طے پا جائے تو اقامے جیسا بہانا کافی ہوتا ہے۔