قومی اسمبلی میں تمام آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا''پاکستان انکوائری کمیشن بل 2016ء '' منظوری کیلئے پیش
قومی اسمبلی میں جمعرات کو تمام آف شور کمپنیوں، کک بیکس اور بھاری قرضوں کی معافی کی بلاامتیاز تحقیقات کیلئے ،،پاکستان انکوائری کمیشن بل 2016ء ،، منظوری کیلئے پیش کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے بل کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ فرد واحد کو بچانے کیلئے آئین کی خلاف ورزی عدالت عظمیٰ کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کے مترادف ہو گی۔ کیا پانچ رکنی بینچ اس بل کو دیکھ کر خوش ہو گا؟ حکومت مذاق نہ کرے اور متحدہ اپوزیشن کے بل کو منظور ہونے دے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی بل کے خلاف ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے کورم کی نشاندہی کے ارادے کو بھانپتے ہوئے ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے اچانک اجلاس کی کارروائی کو ملتوی کر دیا۔ وزیر قانون اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب نہ دے سکے۔ ایوان میں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ پاکستان انکوائری کمیشنز بل 2016ء قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیرغور لایا جائے۔ تحریک پر رائے شماری ہونا تھی۔ پی پی پی کے رہنما سید نوید قمر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ جو بہت بڑا ایشو جو کہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور چائے خانوں سے لے کر ڈائننگ روم تک اس پر بحث ہو رہی ہے۔ اس بل کی ضرورت کیوں ہو ئی حکومت نے سپریم کورٹ سے اپنا کمیشن بنا کر رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے اختیارات کا معاملہ اٹھایا اور حکومتی درخواست کو واپس بھیج دیا۔ حکومت نے پھر مذاق کیا ہے اور وہی قانون ہے جو کہ 1956ء کے ایکٹ سے متعلق لانا چاہتی ہے صرف یہ ترمیم کی ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہونگے یہ کیا مذاق ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے اختیارات کیلئے کسی انتظامی کاروائی کی ضرورت ہے۔ حکومتی حرکتوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کو سارا کام خود کرنا پڑ رہا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت عدلیہ کو اضافی اختیارات نہین دیئے جا رہے ہیں۔ قوم کو قابل قبول نہیں ہے۔ اس قسم کا قانون لا کر سپریم کورٹ کو چھیڑنا ہے۔ کیا سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس بل کو دیکھ کر خوش ہو گا۔ وہ تو اسے حکومتی مذاق قرار دے سکتا ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو متحدہ اپوزیشن کے بل کو منظور کیا جائے جو کہ سیینیٹ میں پیش ہو چکا ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے پارلیمانی رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ مسئلہ گھمبیر بنا دیا گیا ہے۔ سات آٹھ ماہ ہو گئے ہیں بل پانامہ کی وجہ سے پیش کیا جا رہا ہے۔متحدہ اپوزیشن بل پیش کر چکی ہے حکومت نے اس بل پر اعتماد میں نہیں لیا اپوزیشن حکومت کا مشترکہ مشاورتی اجلاس بلوایا جائے اور اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کیا بل پر حکومت کی جانب سے اعتماد میں نہ لینے پر ہم بھی اس کی مخالفت کرتے ہیں ایم کیو ایم کے رہنما ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ بل میں اٹھائے گئے معاملات صوبائی ہیں کیسا قانون لا رہے ہیں جس میں کمیشن کی رپورٹ کو اوپن کرنے اور ٹائم فریم کا زکر تک موجود نہیں ہے پہلے یہ کسی صوبائی اسمبلی یا پھر پنجاب اسمبلی جہاں ان کی اکثریت ہے سے اس اختیار کے بارے میں قراداد منظور کر واتے پھر بل لاتے اب صوبائی معاملہ پر قومی اسمبلی قانون منظور نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ساری قوم کی نظریں پارلیمنٹ پر ہیں کہ وہ کرپشن کے خاتمے کیلئے کیا کرتا ہے۔ لوگوں کا اعتماد بھی پارلیمنٹ پر ہے جبکہ ملک کے حالات مخصوص ہوں، سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات ہوں، کورٹس کیسز ہوں۔ قطری شہزادے کے خط بھی ہوں ۔ حکومت ایسا بل لاناچاہتی ہے کہ کرپشن برقرار رہے۔ یہ بل آئین کی خلاف ورزی ہے۔ کسی کو تحفظ دینے کیلئے آئین کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ جی دار اور سمجھدار اپوزیشن ہے۔ ایسا بل نہیں چاہتی جس کی وجہ سے باہر جا کر شرمسار ہوں۔ اپوزیشن جماعتوں نے بل کے خلاف احتجاجاً ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے فلور وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کو دیا۔ انہوں نے اپنی بات شروع کی ہی تھی کہ نوید قمر نے یہ بل پڑھا نہیں ہے ۔ اپوزیشن کے بعض ارکان کورم کی نشاندہی کیلئے نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔ ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کے ارادے کو بھانپتے ہوئے اجلاس کی کارروائی اچانک جمعہ تک ملتوی کر دی۔