فیض آباد دھرنا کیس: کوئی خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے، یہ ملک اشاروں پر نہیں چلے گا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوئی، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اج ملک سے باہر ہیں پہلے تو یہیں تھے، سیکیورٹی اداروں کی طرف سے پیش رفت رپورٹ کیوں نہیں آئی، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نئی رپورٹ کے لئے عدالتی ہدایات نہیں تھیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ 18فروری کے حکم نامے میں رپورٹ طلب کی گئیں، سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ غیراطمیان بخش قرار دیا گیا، کیا دوبارہ رپورٹ نہیں آنی چاہیے تھی، کیاکچھ لوگ قانون سے بالا تر ہیں؟کوئی خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے، یہ ملک اشاروں پر نہیں چلے گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ کیا ہم ایک آزاد ملک نہیں چاہتے، کسی شہری کی املاک پر آنچ نہیں آنی چاہیے، قائد اعظم کے اردگرد ایسی لیڈر شپ تھی جوپاکستان بنانا چاہتے تھے، ان کے ساتھ کوئی بریگیڈ نہیں تھی، یہاں معزز چیف جسٹس کو گالیاں دی جاتی ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں، ایسے لوگوں کے پس منظر اور زرائع آمدن کا پتہ نہیں، کیا یہ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ اس خطیب کو تنخواہ کون ادا کرتا ہے، کیا غیبی قوتیں معاوضہ ادا کرتی ہیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان لوگوں نے چندہ اکٹھا کیا، پینتیس ہزار لوگوں نے دھرنا قائدین کو چندہ دیا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کیوں فرض نہ کریں ہمارے دشمنوں نے یہ پیسہ دیا، ایسے لوگوں کو میڈیا ملا ہے اس میڈیا کو پیمرا چھو نہیں سکتا، جو گاڑیاں جلائیں تششدد کریں،راستے بند کریں ان پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا، یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں، اسلام کی ایسی تصویرپیش کرتے ہیں لوگ اسلام سے نفرت کریں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر مکمل معلومات کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔سماعت دس روز کے لیے ملتوی کردی گئی