تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نوائے وقت اخبار کے بانی حمید نظامی کو ہم سے بچھڑے اکاون سال بیت گئے۔
حمید نظامی 1915ء میں سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے زندگی کی صرف 47 بہاریں دیکھیں۔ انہوں نے اس مختصر سی زندگی میں ملک و ملت کے لئے وہ کچھ کر دکھایا جس کا کوئی صحافی صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ حمید نظامی نے سانگلہ ہل سے میٹرک، اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن اور ایف سی کالج پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ماسٹر کیا۔ اسلامیہ کالج میں تعلیم کے دوران ان کی قائداعظم سےملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں قائداعظم نے انہیں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت کی ہدایت کی۔ انہوں نے قائداعظم کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھا۔ بطور صدر ایم ایس ایف انہوں نے شہروں اور قصبوں میں قائداعظم کا پیغام پہنچایا۔ تحریک آزادی کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ قائد اعظم کو حمید نظامی کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد تھا۔ قائد نے حمید نظامی کو ایک اخبار نکالنے کا مشورہ دیا۔ جسے انہوں نے مشورہ نہیں حکم سمجھا، اور 23 مارچ 1940ءکو نوائے وقت کے نام سے15 روزہ جریدے کا اجرا کیا۔ اس وقت حمید نظامی کی عمر صرف پچیس سال تھی۔ حمید نظامی نےقلم کی طاقت سے ہندو پراپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا۔ اُنہوں نے بانی پاکستان پر ہونے والی تنقید کا نہ صرف جواب دیا بلکہ اُن کے موقف کی ہمشہ حمایت کی۔ قیامِ پاکستان کےبعد نوائے وقت کے لئےکئی کڑے دور آئے۔ مگر اُنہوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا، حمید نظامی نے قومی دولت لوٹنے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور من مانی کرنے والوں کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ ایک مرتبہ تو نوائے وقت بند بھی کر دیا گیا، لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ وہ اپنے خیالات کےاظہارمیں بے باک‘ نڈر اور دلیر تھے۔ ان کی اکثر تحریریں حکمرانوں بالخصوص آمرِمطلق ایوب خان کو سخت ناپسند تھیں۔ ایوب خان نے ان کو زیر کرنے کا ہر حربہ آزمایا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ حمید نظامی برملا اظہار کرتے تھے کہ قائداعظم کے پاکستان میں فوجی حکمرانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ ہر پرخار وادی سے گزرتے ہوئے قوم کو قائداعظم کا پاکستان لوٹا دینے کے لئے کوشاں تھے، کہ دل کا دورہ جاں لیوا ثابت ہوا۔ گفتار کے اس غازی نے 25 فروری 1962ً کو اس جہان فانی کو خیر باد کہ دیا۔