آرٹیکل 63 اے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث
دالت نے حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کو روسٹرم نے پر طلب کرلیا حمزہ شہباز کے وکیل کو سخت سوالوں کا سامنا سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کے وکیل سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر وضاحت مانگ لی میں نے اپنا جواب جمع کرادیا ہے،وکیل منصور اعوان عدالت کے سامنے سوال ہے کہ پارلیمنٹری پارٹی کا کردار پارٹی ہیڈ کے ہوتے ہوئےکیا ہے؟ منصور اعوان وکیل حمزہ شہباز ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟ سپریم کورٹ کا اہم سوال آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن پر واضح ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کے اہم ریمارکس پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی کا رول الگ الگ ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کے اہم ریمارکس حمزہ شہباز کے وکیل کا غیر متعلقہ جواب ججز کا پہلے بنیادی سوال کا جواب دینے کا حکم پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی کے کردار کا معاملہ... حمزہ شہباز کے وکیل کی بے بسی سوال کا جواب دینے میں مشکلات شریف خاندان کے وکلاء بری طرح پھنس گئے 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63اے شامل کیا گیا،آپ کےپاس سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں؟جسٹس منیب اختر کا سوال آرٹیکل 63اے چودھویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا۔منصور اعوان 18 ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی منصور اعوان آپ کے دلائل سے یہ سمجھا ہوں کہ ووٹنگ دینے کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جسٹس منیب اختر کا دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر سے مکالمہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے، منصور اعوان وکیل حمزہ شہباز کا جواب مختصر فیصلے میں آپ پارلیمنٹری پارٹی ہیڈ اور پارٹی ہیڈ میں کنفیوژ ہورہے ہیں حالانکہ فیصلہ بڑا واضح ہے، عدالت کے اہم ترین ریمارکس میرے خیال میں اس معاملے میں ایک اہم اور سنجیدہ ایشو ہے ،جسٹس منیب اختر پہلے دلیل میں کہا کہ 8 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے ،جسٹس منیب اختر کا سوال کیا وہ کردار ہیں جس کی پابندی ہے ؟جسٹس منیب اختر کا وکیل منصوراعوان سے سوال عدالت کا فل کورٹ کیس کے میریٹ کو دیکھے،منصور اعوان آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے مختصر فیصلے نے ابہام پیدا کئے؟،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا حمزہ شہباز کے وکیل سے مکالمہ وکیل منصور اعوان کے پارٹی سربراہ کے عہدے اور اس کے اختیارات پر تفصیلی دلائل۔۔مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے جو ارکان اسمبلی میں موجود ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایات ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن آئین واضع ہے، فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتا ہے، جسٹس منیب اختر فیصلہ ہم نے دیا تھا ہمیں بہتر پتہ ہے، ڈپٹی سپیکر نے جسکے نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں، جسٹس اعجاز الاحسن آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن میں ابہام نہیں، پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی کام بالکل واضع ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن[ ڈپٹی سپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن ووٹ مسترد کرنے کی حد تک فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، وکیل ڈپٹی سپیکر یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے، جسٹس اعجاز الاحسن سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو،عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن بیرون ملک بیٹھے سیاسی لیڈر پارلیمانی ارکان کو ہدایات دیا کرتے تھے، چیف جسٹس ہم اپ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا فیصلے میں صحیح تشریح کر رہی ہے اپ کہہ رہے ہیں ہاں اگر ججمنٹ ٹھیک ہے تو ہماری ہدایات واضح ہیں ڈپٹی اسپیکر بتا دیں کہ وہ کونسے پیراگراف کا حوالہ دے رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن