پاکستان ٹیم آج آسٹریلیا کےخلاف اپناآخری اہم میچ کھیل رہی ہے.آسٹریلیا پہلےبیٹنگ کرےگی
اختلافات ،،، تنازعات اور مفادات اپنی جگہ۔۔۔ آج پاکستانی کھلاڑیوں کو ایک ٹیم بن کر کھیلنا ہے کینگروز پر جھپٹنے اور اپنی بچی کچی ساکھ بچانے کیلئے آج پورا زور لگانا ہو گا۔پاکستان کے مڈل آٓرڈر بیٹسمین محمد حفیظ بدستور ان فٹ ہیں، ان کی میچ میں شرکت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ توقع ہے کہ فاسٹ بولر محمد عرفان کو ڈراپ کرکے ان کی جگہ وہاب ریاض کو کھلایا جائے گا، قومی ٹیم نے موہالی سٹیڈیم میں سخت ٹریننگ کی، شاہینوں نے اپنی سابق غلطیوں پر خصوصی توجہ دی، جس میں خاص طور پر بیٹنگ کے مسائل شامل تھے۔ وقار یونس، انتخاب عالم اور دیگر آفیشلز نے کھلاڑیوں کو ایک ٹیم بن کر کھیلنے کی نصحیت کیپاکستان کے گروپ کو گروپ آف ڈیتھ کہا جا رہا ہے اس گروپ سے نیوزی لینڈ نے پہلے ہی سیمی فائنل کے لئے کوالییفائی کر لیا ہے۔ دوسری ٹیم کے لئے پاکستان، آسٹریلیا اور میزبان بھارت کے درمیان مقابلہ ہے۔ موہالی میں پاکستان اور آسٹریلیا کے بعد اتوار کو بھارت اور آسٹریلیا کے میچ سے اس گروپ کی سیمی فائنل لائن اپ مکمل ہوگی۔ شکست کی صورت میں پاکستانی ٹیم کو سیدھا گھر جانا پڑے گا۔ تاہم میچ جیتنے کی صورت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم دوسری ٹیموں کے رحم وکرم پر ہوگی ۔
پاکستان کرکٹ میں سیاست کوئی نئی بات نہیں ماضی میں بھی قومی ٹیم تنازعات کا شکار رہی،کبھی گروپنگ تو کبھی کپتانی کی جنگ ،،، کھلاڑیوں کی طاقت پر مان مانیاں ٹیم کا حصہ رہی ہی
پاکستان کرکٹ ٹیم میں کپتانی کا لالچ اور کھلاڑیوں کی طاقت نئی بات نہیں، قدرت یا قسمت بھی اسی وقت ساتھ دیتی ہے جب جذبہ اور لگن ہو اور نیت صاف ہو۔ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہے۔۔۔ پاکستان ٹیم میں کھلاڑیوں کو طاقت بنا کر کھیلنے کی بنیاد 1954ء میں رکھی گئی۔۔۔ 1976ء میں آصف اقبال نے باغی گروپ بنا کر پی سی بی کو فوری معاوضہ بڑھانے کے لیے دھمکایا 1976ء میں انتخاب عالم کو کپتان بنائے جانے کے مطالبے نے زور پکڑا، تو عمران خان کے علاوہ سب نے توقعات سے کم پرفارم کیا۔ 1980-81ء سینئر کھلاڑیوں نے جاوید میانداد کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کر دیا، پاکستان کھلاڑیوں کو نئے کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیم میں میدان میں اتارنا پڑی۔۔۔ 1996ء ورلڈکپ میں وقار اور وسیم کے درمیان کپتانی کی جنگ شدت اختیار کر گئی۔۔۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں وقار یونس کی جگہ وسیم اکرم کو کپتان بنانے کی فرمائش نے زور پکڑا لیکن مطالبہ پورا نہ ہوا، ٹیم پہلے راؤنڈ سے ہی باہر ہو گئی، ساتھ ہی ساتھ وسیم اور وقار بھی ٹیم کی جان چھوڑ گئے۔۔ 2009ء کے ٹی ٹوئنٹی کے چیمپئن کپتان یونس خان کو کپتانی سے ہٹانے کے لیے حلف لینے کی سازش بھی سامنے آچکی ہے، کچھ ایسا ہی حال انضمام اور مصباح الحق کے دور کپتانی میں بھی ہوچکا ہے۔۔ ان سب تنازعات میں کھلاڑیوں کو شائد کوئی فرق نہیں پڑا لیکن پاکستان کی کرکٹ ضرور داغدار ہوگئی
موہالی کی کنڈیشنز دیکھی جائیں تو یہ پاکستان اور آسٹریلیا دونوں کی فیور میں نظر رہی ہے، آج قومی ٹیم کے دو اہم کھلاڑی ایک بار پھر توجہ کا مرکز ہو نگے، ان میں شرجیل خان اور کپتان آفریدی شامل ہیں لیکن آسٹریلوی سائیڈ میں عثمان خواجہ اور گلین میکسویل سرپرائز دے سکتے ہیں
پاکستان آسٹریلیا کے خلاف اپنا آخری میچ کھیل رہا ہے، اور اسی میچ سے گرین ٹیم کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا، اور اسے ٹورنامنٹ میں رہنے کی امید مل جائے گی، موہالی کی پچ بلے بازوں اور گیند بازوں دونوں کیلئے مددگار ثابت ہو گی، اور اس پر بڑے سکور کی توقع کی جارہی ہے،،پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر شرجیل خان بہترین اوپننگ سٹینڈ دے سکتے ہیں جبکہ کپتان شاہد آفریدی بھی اپنے کیرئیر کے ممکنہ آخری میچ میں بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں شعبوں میں کمال دکھا سکتے ہیں، پاکستان ٹیم میں دونوں کھلاڑی ہونگے پلئیرز ٹو وادوسری طرف بات کی جائے آسٹریلیا کی تو وہ بھی فل فارم میں نظر آتی ہے، ٹیم میں شامل آل راؤنڈر گلین میسکویل کا پاکستان ٹیم کے خلاف ریکارڈ کافی اچھا ہے، جبکہ اوپنر خواجہ ٹورنامنٹ میں شاندار کارکرگی دڈکھا چکے ہیں۔ آسٹریلیا کی جانب سے دونوں کھلاڑی موہالی میں بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں