کوئٹہ میں رواں سال دہشتگردی کے کئی واقعات میں اب تک سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں

کوئٹہ میں نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی دہشتگردوں نے گھناؤنے وار کرنا شروع کر دیئے، دوہزار سولہ کے صرف پہلے پانچ ہفتوں میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں سمیت دہشتگردی کے واقعات میں اکتالیس افراد شہید اور ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہوئے، چار جنوری کو کوئٹہ کے علاقے سریاب میں ناکے پر فائرنگ سے دو پولیس اہلکار شہیدہوئے۔ جبکہ آٹھ جنوری کو کوئٹہ کے علاقے ملتانی محلہ میں مسجد کے باہر تعینات دو پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، تیرہ جنوری کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں انسداد پولیو مرکز کے قریب بم دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں بارہ پولیس اور ایک ایف سی اہلکار سمیت پندرہ افراد شہیدہوئے ۔ اٹھائیس جنوری کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن منیر مینگل روڈ پر فائرنگ میں چار پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ چھ فروری کو منان چوک کے قریب ضلعی کچہری کے سامنے خودکش دھماکے میں تین ایف سی اہلکاروں سمیت دس افراد شہید اور تیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ پانچ اپریل کو ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی اور قمبرانی روڈ پر سب انسپکٹر دودا خان کو گھر کے قریب گولیوں مار کر شہید کیا گیا۔ 10مئی کو بلوچستان یونیورسٹی کے باہر ٹریفک پولیس کی چوکی کے قریب بم دھماکے میں دو اہلکار شہید اور تین زخمی ہوئے ۔ یکم جون کو سبزل روڈ پر سر پل کے قریب سب انسپکٹر مختیار ملغانی کو گھر سے پولیس لائن جاتے ہوئے گولی مار کرشہید کیا گیا۔ رمضان المبارک میں بھی ٹارگٹ کلرز کو رحم نہ آیا اور 13جون کو سریاب روڈ شفیع کالونی میں سب انسپکٹر شبیر احمد کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے شہید کیا ۔ 19جون کو گوالمنڈی میں افغان روڈ پر مسجد کے اندر بے رحم قاتلوں نے پولیس حوالدارمحمد امین کو سر پر گولیاں مارکر ابدی نیند سلادیا۔ آٹھ اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں بدترین دہشتگردی کا واقعہ ہوا، جس میں کم از کم ستر افراد شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوئے، ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد وکلا کی ہی تھی ،، چوبیس اکتوبر کی رات کو دہشتگردوں ایک بار پھر کاری وار کر پولیس کے تربیتی مرکز کو نشانہ بنایا ۔۔۔ جس میں درجنوں اہلکار شہید کیے گئے