چین نےانڈیااورجاپان کا موقف مسترد کر دیا
چین نے جنوبی اور مشرقی بحیرہ چین کے متنازع حصوں میں سمندری نظام زبردستی تبدیل کرنے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے انڈین اور جاپانی رہنماوں کی جانب سے معاشی زبردستی اور یکطرفہ کوششوں کے بیانات کو مسترد کیا ہے۔ بیجنگ میں بریفننگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژا لیجیان نے کہا کہ جھوٹ اور الزامات کی بنیاد پر سفارتکاری بالکل بھی تعمیری نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ معاشی زبردستی کی جائے پیدائش اور صدر دفتر واشنگٹن میں ہے۔ پہلی بات چین دھمکیاں نہیں دیتا اور نہ ہی تجارتی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ تیسری بات یہ کہ چین مختلف ممالک میں کمپنیوں کو بلاوجہ دباتا نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں معاشی زبردستی کا الزام چین پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔چین کے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ چین علاقائی خودمختاری اور سمندری حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ اختلافات کی صورت میں ان ممالک سے مذاکرات جاری رہیں اور مناسب حل تلاش کیا جائے۔چینی وزارت خارجہ نے کواڈ اتحاد سے مطالبہ کیا ہے کہ دوسرے ممالک کو ہدف نہ بنایا جائے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چین سمجھتا ہے کہ علاقائی تعاون کے کسی اتحاد کو کسی تیسرے فریق یا اس کے مفادات کو ہدف نہیں بنانا چاہیے۔چھوٹے گروہ کے طور پر تعاون کرنا جس میں دوسرے ممالک کو شامل نہ کیا جائے یا انھیں ہدف بنایا جائے یہ جدید دور کے رجحان کے خلاف ہے۔ یہ علاقائی ممالک کی خواہشات کے خلاف ہے اور اس کی تقدیر میں ناکام ہونا لکھا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چین عالمی امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے عالمی پیداوار بڑھائی ہے، بین الاقوامی نظام کا دفاع کیا ہے اور عوامی ضرورت کی اشیا فراہم کی ہیں۔انھوں نے ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ چینی ترقی کو صحیح انداز میں دیکھیں اور خطے میں استحکام اور تعاون بڑھانے کی کوششیں کریں۔