قومی اسمبلی میں حج پالیسی 2019ء کی تفصیلات پیش کردی گئیں
قومی اسمبلی میں جمعہ کو حج پالیسی 2019ء کی تفصیلات پیش کر دی گئیںگزشتہ سال کرنسی کے اتار چڑھائو کی وجہ سے 4 ارب 56 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات حکومت پاکستان نے برداشت کیے تھے،۔حج 2019ء کے لیے رہائش ،خوراک اور ٹرانسپورٹ کے واجبات میں کمی کی کوشش کی جا رہی ہے،مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے متعلق قانون بنانے کی تفصیلات سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے قانون سازی زیر عمل ہے اس بارے میں صوبوں سے رابطہ کیا گیا ہے 1974سے اب تک کمیٹی کے ارکان انتخاب کاقومی اسمبلی سے منظور شدہ ایک قرارداد کے مطابق ہورہا اب قانون بنے گا ۔گزشتہ روز وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نور الحق قادری نے رانا ثناء اﷲ کے سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو آگاہ کیا کہ 75 فیصد حج اخراجات اقامت گاہوں،ٹرانسپورٹ،لازمی حج واجبات چارجز وغیرہ کی مد میں ہوتے ہیں باقی 25 فیصد اخراجات میں حج کا کرایہ شامل ہے جس کا تعین متعلقہ ایئر لائن سے بات چیت کے بعد کیا جاتا ہے یہ درست ہے کہ تخمینہ جات وزارت مذہبی امور کی جانب سے لگائے جاتے ہیں کسی آزادی فریق سے تصدیق کی ضرورت نہیں کیونکہ بعد ازاں آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ آڈٹ ٹیم کی جانب سے ان اخراجات کا آڈٹ کیا جاتا ہے۔حج 2019ء کے لیے تخمینہ جات دسمبر 2018ء میں تیار کیے گئے جن کی منظوری 31 جنوری 2019ء کو کابینہ کی جانب سے دی گئی۔مکہ میں رہائش کا کرایہ 2415سعودی ریال،ٹرانسپورٹ 336 ریال،کھانے کے اخراجات 982 سے زائد ریال،مدینہ میں رہائش کے واجبات 1050 ریال ہیں۔مکتب کے لیے 1817،ٹرین اخراجات 525 ،زم زم اخراجات ،ساڑھے 10 ریال،مشاہر اخراجات 1102،کھانے کی ہلکی پھلکی اشیاء کے لیے ساڑھے 10 ریال ،سامان کے اخراجات 21 ریال ،ہوائی اڈے پر ایکسپریس سروس ساڑھے 10 ریال، حج محافظ فنڈ500 روپے،سروس اخراجات ساڑھے 3000 مقرر کیے گئے ہیں۔ہوائی کرایہ شمال سے ایک لاکھ 10 ہزار،جنوب سے ایک لاکھ روپے مقرر کیا گیا ہے۔وزیر مذہبی امور نے قومی اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ کرنسی کے اتار چڑھائو کی وجہ سے 4 ارب 56 کروڑ روپے سے زائد حکومت پاکستان نے برداشت کیے تھے۔حج 2019ء کے لیے رہائش ،خوراک اور ٹرانسپورٹ کے واجبات میں کمی کی کوشش کی جا رہی ہے۔بات چیت جاری ہے۔ان میں ایکسپریس سروسز ،سامان ،مشاہرے ،ٹرین اور لازمی حج ادائیگیوں کی قیمتیں بھی شامل ہیں۔صاحبزادہ صفت اﷲ کے سوال کے جواب میں وزیر مذہبی امور نے اعتراف کیا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبران کے انتخاب کا اختیار 23 جنوری 1974ء کو قومی اسمبلی سے منظور شدہ قرارداد کے مطابق ہے۔ملک میں رویت ہلال کے نظام کو منظم کرنے کے لیے رویت ہلال سے متعلقہ قانون سازی زیر تعمیل ہے۔یاد رہے کہ اس مقصد کے لیے پنجاب ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلیوں سے قراردادوں کی منظوری درکار ہے۔سندھ اسمبلی اس قسم کی قرارداد پہلے ہی منظور کی جا چکی ہے۔