میمو کیس میں وفاقی حکومت نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بیان حلفی پرجواب الجواب سپریم کورٹ میں داخل کرادیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اٹھارہ صفحات پر مشتمل جواب اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔ جواب میں وفاقی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ میمو صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا اور جھوٹ کا پلندہ ہے جس سے قومی سلامتی متاثر نہیں ہوسکتی۔ میمو ایک اجنبی نے لکھا جس کی کوئی مستند حیثیت نہیں۔ منصوراعجاز نے میمو کے ذریعے پاکستانی اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وفاق کے نکتہ نظر میں ایسی کوشش ایک نان ایشو ہے جس کا اظہار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی کرچکے ہیں جبکہ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی منصور اعجاز کے دس اکتوبر کے مسودے کی تردید بھی کرچکے ہیں۔ جواب میں وفاق نےمنصور اعجاز کی عدالت میں پیش ہونے کی درخواست قبول کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کومیمو کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں کمیٹی ریکارڈ اکٹھا کررہی ہے۔ حسین حقانی کے حوالے سے وفاق کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر نے خود عہدہ چھوڑا ان سے استعفیٰ لیا نہیں گیا۔ سولہ نومبر کو حسین حقانی نے صدر مملکت کے نام خط میں لکھا کہ وہ قومی مفاد میں مستعفیٰ ہونے کو تیار ہیں جس کے بعد انہوں نے اپنا استعفیٰ باقاعدہ مجاز اتھارٹی کو پیش کیا جس نے اسے منظور کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ پاک فوج دنیا کی آٹھویں بڑی فوج ہے، میمو یا کوئی اور معاملہ اس کا مورال کم نہیں کرسکتا۔ پاکستانی عوام اور منتخب نمائندوں نے ملکی دفاع کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے بیان حلفی پر حکومت کو ستائیس دسمبر تک اپنا جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔