سپریم کورٹ آف پاکستان کا بڑا حکم، انتظامیہ کو وکلا چیمبرز گرانے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتظامیہ کو اسلام آباد کچہری میں وکلا چیمبرز گرانے سے روک دیا۔ عدالت نے گرفتار وکلاء کے حوالے سے ریلیف فراہم کرنے کی زبانی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے۔ وہ عدالت ان معاملات کو دیکھ لے گی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان، اسلام آباد انتظامیہ اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ کرکٹ گراؤنڈ پر قبضے کو قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ جمعہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اسلام آباد کچہری میں وکلا کے چیمبرز گرائے جانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی، اسلام آباد بار کے صدرفرید کیف اور سینئر وکیل رہنماحامد خان،شعیب شاہین سمیت وکلاء کی بڑی تعداد کمرئہ عدالت میں موجود تھی۔عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی۔ عدالت نے اسلام آباد بار کونسل کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرلی،کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت تک مزید کارروائی نہ کی جائے، روسٹرم پر وکلا کا مجمع لگنے پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کیا اور تمام وکلا کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کسی کے دبائومیں نہیں آئے گی، عدالت کو پریشر میں لانے کی کوشش نہ کریں، ہم بھی وکیل رہے ہیں لیکن ایسی حرکتیں کبھی نہیں کیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی وکیل نے پریکٹس کرنی ہے تو اپنا دفتر خود بنائے، عوامی مقامات پر قبضہ کرنا وکیلوں کا کام نہیں ۔وکلا اپنی عزت و تکریم پر سمجھوتہ نہ کریں، ہم بھی خود کو وکلا کا حصہ سمجھتے ہیں، وکلا عدالتوں کیلئے جیسی گفتگو کرتے ہیں وہ بھی دیکھیں، یہ کیا طریقہ ہے جہاں 4 وکیل جمع ہوں مائیکرو فون اٹھا کر تقریر شروع کر دی، وکلا عدلیہ کا حصہ ہو کر اس کے خلاف کیا کچھ نہیں کہتے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فٹبال گرائونڈ پر 3 منزلہ چیمبرز تعمیر کیے گئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا چیمبرز وکلا کی ذاتی ملکیت تصور ہوتے ہیں، بار ایسوسی ایشن کو چیمبرز لیز پر دینے کا اختیار کہاں سے آگیا ؟ پبلک کی زمین پر چیمبرز بنانے کا اختیار کہاں سے آگیا ؟ ملک میں کہیں بھی گرائونڈ میں چیمبرز نہیں بنے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ وکلا چیمبرز کیلئے 5 ایکڑ اراضی مختص کی گئی ۔ دلائل کے دوران حامد خان ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ وہ وکلاء کے عمل کو درست نہیں سمجھتے نہ ہی اس کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے چار رکنی بینچ نے چیمبر گرانے کے حوالے سے حکم دیتے وقت وکلاء کے نمائندوں کو نہیں سنا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم میں لکھا گیا ہے کہ بار کے نمائندے عدالت کے اندر موجود تھے اور انہوں نے اپنا موقف دیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ وکلاء کو ہائی کورٹ سے ملحقہ پانچ ایکڑ زمین الاٹ کی گئی ہے وہاں جا کر اپنے چیمبر بنائیں سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ بینچ اور بار کے تعاون سے ہی عدالتی نظام چلتا ہے۔ عدالت اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے مداخلت کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء کے عمل کا کوئی جواز نہیں تھا شہریوں کے لئے بنائے گئے پارک میں چیمبر بنانا وکلاء کا حق نہیں ہے۔قبضہ ایک سال سے ہو یا دس سال سے، اس کو قانون نہیں کہا جا سکتا۔ بہت سے عمارتوں میں دفتر مل جائیں گے وہاں جا کر دفاتر بنا لیں۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔