ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کو مسترد کردیا
ایران کے صدر حسن روحانی نے حالیہ امریکی پابندیوں پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جھوٹ بول رہا ہے کہ وہ مذاکرات چاہتا ہے۔ایرانی صدر نے کہا کہ رہبرِ اعلی کے خلاف پابندیاں بے کار ثابت ہوں گی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ جو لوگ ان کے وزیرِ خارجہ کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ سفارت کاری کا راستہ بند کر رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایران کے حالیہ جارحانہ رویے کا جواب دیا ہے۔گزشتہ ہفتے ایرانی فورسز نے ایک امریکی جاسوس ڈرون کو جنوبی صوبے ہرمزگان کے علاقے کوہِ مبارک کے نزدیک ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر مار گرایا تھا۔بعد میں امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے تصدیق کی تھی کہ ایران نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کے ذریعے امریکی بحریہ کا ڈرون گرا دیا ہے۔امریکہ کا اصرار ہے کہ اس کا ڈرون بین الاقوامی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔امریکہ نے خلیجِ عمان میں تیل کے ٹینکروں پر حملوں کا الزام بھی ایران پر عائد کیا تھا جبکہ ایران نے اس الزام کو رد کر دیا تھا۔دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں گزشتہ برس مئی میں اس وقت اضافہ ہوا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا تھا۔اس کے بعد امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا اور جوہری معاہدے پر نئے سرے سے مذاکرات کے لیے ایران پر دبا بڑھانا شروع کیا۔گزشتہ مہینے صدر ٹرمپ نے ان ممالک پر بھی دبا بڑھایا تھا جو امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل خرید رہے ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کی آمدنی کے بڑے ذرائع روکنا چاہتے ہیں۔ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ردِعمل میں اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک جوہری معاہدے کے کچھ حصوں سے انحراف کرے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایران یورینیم کی افزدوگی کو اس سطح سے اوپر لے جا سکتا ہے جو جوہری معاہدے میں طے کی گئی تھی۔افزودہ یورینیم جوہری ری ایکٹر میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں.