سابق وزیراعظم بےنظیر کی شہادت کوچھ سال بیت گئے، جائےشہادت کو کیوں دھویا گیا، عوام کواب تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا.

ستائیس دسمبر دوہزارسات جمعرات کا دن لیاقت باغ کےتاریخی میدان میں عوام منتظر تھے،کس کو معلوم تھا،کہ یہ بی بی کا آخری خطاب ہے،دیرتک کھڑے عوام تالیاں بجاتے رہے، اس دوران محترمہ بھی دونوں ہاتھ بلند کر کےزوردار تالیوں اور مسکراتےچہرے کےساتھ جواب دیتی رہیں، یہ بات تاریخ کا حصہ ہے، کہ انہوں نے اپنےخطاب کےآغاز میں ہی کہا تھا، کہ میری جان کوسخت خطرہ ہے، مجھےقتل کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، مگرمیں اپنا ملک بچانا چاہتی ہوں، پاکستان ہےتو ہم ہیں، عوام آج بھی پُرنم آنکھوں سےاس سوال کا جواب مانگتے ہیں، کہ بھٹو کی لاڈلی پنکی کا قاتل کون ہے،اسےکس جرم کی سزا دی گئی، کس نےبےنظیرکو گاڑی سےباہرنکلنے کا کہا، قاتل کیاچاہتے تھے اورکیا یہ تنہا بیت اللہ محسود کا کام تھا، جائے شہادت کوآناً فاناً کیوں دھویا گیا، کرائم سین کو فوری دھونے کےاحکامات جاری کرنےوالےکون تھے، یہ لوگ کبھی بےنقاب ہوں گے،یا پاکستان کے پہلےوزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کی طرح بےنظیر بھٹو کا قتل بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلئےراز ہی رہے گا